چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مارگلہ نیشنل پارک سے متعلق سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ٹیک اوور کر رکھا ہے؟ یہ ملک عوام کیلئے بنا ہے صاحبوں کیلئے نہیں، ملک ایسے نہیں چلے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک کے قومی اثاثہ کے کا تحفظ حکم کیا جاری کیا تھا اس کے بعد وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کردیا گیا اور وائلڈ لائف بورڈ کی چیئر پرسن کوعہدہ سے ہی ہٹادیا گیا، وزارت داخلہ کا کام تو ملک میں امن و امان کے معاملات کو دیکھنا ہے، حکومت کی جانب سے عدالتی احکامات کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے، اقدامات سے لگتا ہے عدالتی فیصلے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، ہم مارگلہ سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کے فیصلے پر ہر صورت عملدرآمد کرائیں گے۔
سیکرٹری کابینہ نے وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن کوہٹانے کی سمری وزیر اعظم سے منظورکروائی ہے، عدالت نے سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور مونال ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کو عدالت طلب کیا۔
اٹارنی جنرل اور سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے، سیکرٹری کابینہ نےموقف اختیار کیا انہوں نے مارگلہ نیشنل پارک کا انتظام وزارت داخلہ کے سپرد کرنے کی سمری نہیں بھیجی تھی بلکہ وزیراعظم شہباز شریف نے خود یہ حکم جاری کیا تھا جو میرے آفس تک پہنچایا گیا تھا، چیف جسٹس نے کہا آپ نے بطور سیکرٹری وزیر اعظم کو کیوں نہیں بتایا کہ یہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے، وزیراعظم کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ اپنے طور پر ہی کچھ بھی کر دیں، انہیں قواعد بیوروکریٹس نے ہی بتانے ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کیا جبکہ سیکرٹری کابینہ کی جانب سے وزیراعظم صاحب کا لفظ اداکرنے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ناراضگی اظہار کرتے ہوئے کہا غلامی کی زنجیریں توڑ دیں، ہم سیکرٹری کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتے ہیں، آئینِ کو مذاق بنا دیا گیا ہے، کیا نیشنل پارک کی دیکھ بھال کرنا وزارت داخلہ کا کام ہے،کیا پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے ملک سے دہشتگردی ختم کر چکے ہیں جو اب پارکوں کا نظام بھی دیکھیں گے، اس طرح تو تعلیم و صحت سمیت سب کچھ ہی وزارت داخلہ کو دیدیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سے استفسار کیا وائلڈ لائف بورڈ وزارت داخلہ کو منتقل کرنے کا کس نے کہا تھا، انہوں نے بتایا کہ ان کی وزارت نے ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی، یہ وزیر اعظم کاہی فیصلہ تھا، وزیر اعظم کی کوآرڈی نیٹر رومینہ خورشید عالم نے بورڈ چیئر پرسن کو ہٹانے کا کہا تھا، جس پر رومینہ خورشید عالم نے روسٹرم پر آکر کہا میں نے انہیں ہٹانے کا نہیں کہا تھا، چیف جسٹس نے کہا کیا کسی نے اوپر سے تو کال نہیں کی تھی یا پھر خلائی مخلوق سے تو کال نہیں آئی تھی، کیا نیشنل پارک وزارت داخلہ کے حوالے کیا جانا چاہیے یا نہیں؟ سیکرٹری کابینہ اور کوآرڈی نیٹر نے اس کی مخالفت کی۔
چیف جسٹس نے کہا وائلڈ لائف بورڈ کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کیوں کیا گیاہے، ایک سماعت کے دوران ایک میجر جنرل آئے تھے،اس کا نام بتائیں وہ پہلے تو عدالت کو فائلیں ہی نہیں دکھا رہے تھے، ہم سے فائلیں چھپا رہے تھے، یہ ملک ہے تماشہ بنا دیا گیا ہے، پارلیمنٹ کے باہر سے میرے گھر تک پائین سٹی ہاؤسنگ پراجیکٹ کے بینر ز لگے ہوئے ہیں جس پر سی ڈی اے اسپانسرڈ لکھا ہوا ہے، انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کیا بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے ٹیک اوور کر رکھا ہے، بیوروکریٹس عوام کی نہیں کسی اور ہی کی خدمت کر رہے ہیں، یہ ملک عوام کیلئے بنا ہے صاحبوں کیلئے نہیں، ملک ایسے نہیں چلے گا،کیا وزیراعظم کل کسی افسر کو کسی بندے کو گولی مارنے کا حکم دے تو وہ گولی مار دیگا۔
سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک میں کاروباری سرگرمیوں سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وائلڈ لائف بورڈ کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے نوٹیفکیشن اور وائلڈ لائف بورڈ کی چیئر پرسن رعنا سعید کی برطرفی کے احکامات پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے عملدرآمد روک دیا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں ہم تو مارگلہ نیشنل پارک سے ریسٹورنٹس ہٹانے چلے تھے یہاں تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی نکل آئی ہیں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھالاہوا ہے، اٹارنی جنرل کوعلم ہی نہیں ہے کہ چیزیں کیسے ہو رہی ہیں؟
عدالت نے اٹارنی جنرل کو تمام معاملات وزیر اعظم کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کی جبکہ مارگلہ نیشنل پارک میں ہاؤسنگ سوساٹی کی تعمیر سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 15اگست تک ملتوی کردی۔