ویراعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان بامعنی مذاکرات کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران خان ہیں۔
دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ اپنی پالیسی واضح کر چکی ہے بلکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی قومی اسمبلی سے اپنے حالیہ خطاب کے دوران تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش کرچکے ہیں لیکن، وزیر اعظم کی پیشکش کو ایوان زیریں کے اسی اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے توہین آمیز رویے کے ساتھ فوراً مسترد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ماضی میں سیاسی مذاکرات کے حق میں تھے اور نہ اب دلچسپی رکھتے ہیں۔
رانا ثنا اللہ کے نزدیک بامقصد مذاکرات اہم ہیں اور اس کی جانب آگے بڑھنا چاہئے لیکن مذاکرات کے راستے میں عمران خان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی دوسرے درجے کی قیادت حکومت کے ساتھ بات چیت کے حق میں ہے لیکن ان کے اس طرح کے مذاکرات کی خواہش کے باوجود عمران خان نے ان سب کو مسترد کر دیا جس کا نتیجہ 26؍ نومبر جیسے واقعات کی صورت میں سامنے آیا۔
سیاسی مشیر کا کہنا تھا کہ یہ (26 نومبر کا واقعہ) نہ صرف مذاکرات کے ممکنہ آغاز کیلئے ایک سنگین جھٹکا تھا بلکہ اس واقعے نے یہ بھی واضح کر دیا کہ عمران خان اپنی پارٹی کی پوری دوسرے درجے کی قیادت کی رائے کو کوئی حیثیت نہیں دیتے، حکومت پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت سے رابطے میں ہے لیکن یہ لوگ بے بس ہیں اور پارٹی کے بانی چیئرمین کی جانب سے انہیں ویٹو کیے جانے کی وجہ سے یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔
کچھ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ حکومت کے ساتھ با معنی مذاکرات کیلئے تحریک انصاف کو فوج اور اس کی سابقہ و موجودہ اعلیٰ قیادت کے ساتھ براہِ راست تنازع کی گزشتہ دو سالہ پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم، رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ فوج رواں سال 8؍ مئی کو مذاکرات کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کر چکی ہے۔
رانا ثنا اللہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں تاہم اگر کوئی سیاسی گروہ اپنی ہی فوج پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گا، ایسے انتشار پسند گروہ کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست ترک کرنے اور تعمیری سیاست کا وعدہ کرے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے زور دے کر کہا تھا کہ کسی بھی طرح کی بات چیت کا عمل سیاسی جماعتوں کے مابین ہونا چاہئے، فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔
جہاں پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت مذاکراتی عمل کی حامی ہے، وہیں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اور بیرون ملک موجود حامیوں نے 26 نومبر کے واقعہ کے حوالے سے بھی فوج مخالف مہم چلائی۔ فوج اور اس کی اعلیٰ کمان کیخلاف اس تازہ ترین پروپیگنڈے کے جواب میں، فارمیشن کمانڈرز کے حالیہ اجلاس میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ قانوناً دارالحکومت میں فوج کی تعیناتی کے بعد اہم سرکاری عمارتوں کو محفوظ بنانے اور دورے کیلئے آئے وفود کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے موقع پر بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ بعض سیاسی عناصر کی جانب سے پاکستان کے عوام، مسلح افواج اور اداروں کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش میں یہ پہلے سے سوچا سمجھا اور مربوط منصوبہ اور پروپیگنڈا ایسے سیاسی عناصر کے مذموم مقاصد کی عکاسی کرتا ہے۔ بیرونی عناصر کی حوصلہ افزائی اور معاونت سے کی جانے والی یہ بیکار کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ حکومت زہر افشانی، جھوٹ اور نفاق کے بیج بونے کیلئے اظہار رائے کی آزادی کے غیر اخلاقی استعمال کو روکنے کیلئے سخت قوانین اور ضوابط کو نافذ اور ان پر عمل کرے۔ سیاسی و مالی مفادات کیلئے جعلی خبریں پھیلانے والوں کی نشاندہی اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔