دخترِ مشرق، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو آج ہم سے بچھڑے 17 سال بیت گئے

دخترِ مشرق، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹوکی شہادت کو 17 سال گزر گئے۔

اس دوران پیپلز پارٹی کم و بیش تین بار اقتدار میں رہی مگر آج تک بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں پورا سچ عوام تک نہیں پہنچ سکا۔
27 دسمبر 2007 کی شام تھی جب بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرکے واپس روانہ ہوئیں تو پہلے گولی چلی پھر دھماکا ہوا اور ہنستی مسکراتی بے نظیر بھٹو سفر آخرت پہ روانہ ہو گئیں۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ، سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف ، تحریک طالبان کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود ، پولیس کے 2 افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد سمیت کم و بیش 15 افراد پر لگا ۔

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 2 پولیس افسروں کو جائے وقوعہ دھونے اور بے نظیر کو تحفظ دینے میں ناکامی پر 17،17 سال قید کی سزائیں سنائیں ۔ ان کے علاوہ زیر حراست 5 ملزمان کو کم و بیش 300 سماعتوں کے بعد 31 اگست 2017 کو بری کردیا گیا ۔

بے نظیر کیس کی اسکاٹ لینڈ یارڈ اور یو این کمیشن نے بھی تحقیقات کیں ۔ یواین کمیشن کی رپورٹ میں کچھ فوجی افسران پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں مگر پیپلز پارٹی حکومت نے اپنی ہی ایک انکوائری کمیٹی بنا کر اس رپورٹ کو مسترد کردیا ۔

بے نظیر بھٹو قتل کیس کے سب سے بڑے ملزم جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا جبکہ بیت اللہ محسود کے خلاف ثبوت تو موجود تھے مگر یہ اہم ملزم ڈرون کارروائی میں مارا گیا۔
اسامہ بن لادن بھی 2 مئی 2011 کو امریکی کارروائی کا نشانہ بن گئے ۔

بے نظیر بھٹو کیس اب عملی طور پر بند ہو چکا ہے ۔ دونوں پولیس افسران کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں اب تک زیر التوا ہیں تاہم اس کیس سے وابستہ بعض ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ بے نظیر کے اصل قاتلوں کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت کبھی عدالتوں کے سامنے لایا ہی نہیں گیا ۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود اپنی کتاب میں اعتراف کرچکے ہیں کہ بے نظیر کا قتل انہی کی جماعت نے کیا تاہم کس کے کہنے پر کیا اور کون کون ملوث تھا ، یہ سب آج تک راز ہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں