طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ گروپ ملک کا کنٹرول حاصل کرنے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بنیادی طور پر چین کی سرمایہ کاری پر انحصار کرے گا۔
اطالوی اخبار ‘لا ریپبلیکا’ کو انٹرویو دیتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ‘طالبان، معاشی ترقی کے لیے چین کی مدد سے لڑائی کریں گے’۔
طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر 15 اگست کو قبضہ کر لیا تھا جبکہ معاشی طور پر تباہی اور بھوک و افلاس کے خدشات کے ساتھ 31 اگست کو افغانستان میں 20 سالہ مغربی جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
حالیہ ہفتوں میں کابل ایئرپورٹ سے افراتفری میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد مغربی ممالک کے افغانستان کے لیے مالی امداد پر بڑے پیمانے پر پابندی لگادی ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ کی رپورٹ کے مطابق طالبان ترجمان نے انٹرویو میں کہا کہ ‘چین ہمارا سب سے اہم شراکت دار ہے اور ہمارے لیے بنیادی اور غیر معمولی موقع کی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ یہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری اور تعمیر نو کے لیے تیار ہے’۔
چین، افغانستان کی ترقی میں کردار ادا کر سکتا ہے، ترجمان طالبان
انہوں نے کہا کہ ‘چین کے نئے سلک روڈ منصوبے کو طالبان کی طرف سے انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے’۔
اس انفرا اسٹرکچر منصوبے کے ذریعے چین، تجارتی روٹس کھول کر اپنا عالمی اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ‘ملک میں بہترین تانبے کی کانیں ہیں جنہیں چین کی مدد سے جدید اور قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ چین دنیا بھر کی مارکیٹس تک رسائی کے لیے ہمارا پاس ہے’۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ مستقبل میں خواتین کو جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘خواتین بطور نرسز، پولیس کے محکمے اور وزارتوں میں بطور معاونین کام کرنے کی اہل ہوں گی’۔
تاہم انہوں نے کسی خاتون کو وزیر بنانے کے امکان کو رد کیا۔
طالبان کے ساتھ ‘دوستانہ تعلقات’ کیلئے تیار ہیں، چین
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے قطر کے شہر دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے چین کے سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین نے افغانستان میں امن اور مفاہمت کے فروغ میں تعمیری کردار ادا کیا ہے۔
ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ ملک کی تعمیر نو میں بھی چین کو شراکت دار بنانے کے لیے مدعو کریں گے۔
سہیل شاہین نے سی جی ٹی این ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ‘چین ایک بہت بڑی معیشت اور صلاحیت کے ساتھ ایک بڑا ملک ہے’۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے گزشتہ ماہ شمالی چین کے بندرگاہ کے حامل شہر تیانجن میں ایک طالبان وفد سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ انہیں اُمید ہے کہ افغانستان ایک اعتدال پسند اسلام پسندانہ پالیسی اپنائے گا۔
قبل ازیں چین نے طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کے ساتھ ‘دوستانہ اور تعاون’ کے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دوران چین نے طالبان کے ساتھ غیر سرکاری طور پر تعلقات استوار کر لیے تھے۔
چین اور افغانستان کے درمیان 76 کلومیٹر طویل سرحد بھی ملتی ہے اور چین کو سرحدی خطے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے حوالے سے افغانستان کے خطرہ بننے کا خدشہ بھی رہا ہے۔
افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی، نئی حکومت کی شکل جلد واضح ہوگی، طالبان
طالبان کے وفد نے جولائی میں چین کا دورہ کیا تھا اور وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی تھی اور واضح کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین انتہاپسندوں کے استعمال کے لیے مرکز نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ افغانستان کو اس وقت مالی امداد کی اشد ضرورت ہے اور طالبان کو افغان سینٹرل بینک کے بیرون ملک موجود 10 ارب ڈالر کے اثاثے تک رسائی ملنے کا امکان انتہائی معدوم ہے۔
رواں ہفتے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے عالمی برادری کو افغانستان میں ‘انسانی المیے’ کے خدشے سے خبردار کرتے ہوئے اسے ہنگامی فنڈنگ فراہم کرنے پر زور دیا تھا۔
ملک میں شدید خشک سالی اور جنگ نے ہزاروں خاندانوں کو اپنا گھر باڑ چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔