واشنگٹن: امریکا میں منظرعام پر آنے والے خفیہ سرکاری دستاویزات کے مطابق چین کے ہاتھوں جوہری طاقت (پاکستان) کا یرغمال ہونا اور طالبان پر کوئی اثر و رسوخ ختم ہونے پر مشتمل خدشات کی وجہ سے امریکا نے پاکستان سے مزید دوری اختیار نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق امریکی دارالحکومت کی خبریں دینے والے خبررساں ادارے پولیٹیکو نے حال ہی میں واشنگٹن اور اسلام آباد کے مابین تبادلہ ہونے والے پیغامات پر ایک رپورٹ شائع کی۔
افغانستان کی صورتحال پر امریکا کا پاکستان، بھارت، چین اور روس سے رابطہ
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ’جوبائیڈن انتظامیہ خاموشی سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے تناظر میں داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں سے لڑنے میں تعاون کرے‘۔
پیغامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کو ’ایک ایسی قوم کے طور پر دیکھتا ہے جو افغان طالبان سے روابط رکھتا ہے جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون مددگار ثابت ہو سکتا ہے، پاکستان ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک بھی ہے امریکی حکام چین کے اثر و رسوخ کی وجہ سے (پاکستان) سے محروم ہونا پسند نہیں کریں گے‘۔
اس کے جواب میں پاکستان نے عندیہ دیا کہ اسلام آباد افغانستان سے بھاگنے والے لوگوں کی مدد کرنے میں اپنے کردار کی زیادہ عوامی شناخت کا مستحق ہے حالانکہ اس نے اس خدشے کو کم کر دیا ہے کہ ملک میں طالبان کی حکمرانی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
پاکستان، امریکا کو آگے بڑھنا چاہیے اور افغانستان میں مل کر کام کرنا چاہیے، معید یوسف
پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق ’امریکا اور پاکستان کے مابین تبادلے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں حکومتیں آئندہ نپے تلے راستے پر نہیں چلیں گی ایسے وقت پر جبکہ امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لی ہیں‘۔
لیک ہونے والی دستاویزات میں امریکی سفارت خانے، اسلام آباد کے پیغامات شامل ہیں جن میں واشنگٹن کو بتایا گیا کہ وہ ’افغان مہاجرین کے بحران سے تنگ آ رہے ہیں‘ اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے رہنمائی چاہتے ہیں۔
28 تاریخ کے ایک کیبل پیغام کو بھی پولیٹیکو حاصل کیا جس میں ’فوری رہنمائی کے لیے درخواست‘ کی گئی تھی کہ ’پاکستان میں افغانیوں کی مدد کے لیے تیزی سے بڑھتی ہوئی درخواستوں‘ سے کیسے نمٹا جائے۔
خیال رہے کہ اس طرح کے معاملات میں سفارت خانے اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی یا شراکت دار این جی اوز کو اپنی پریشانی سے آگاہ کرتے ہیں۔