طالبان کے متعدد ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان فورسز نے اب وادی پنج شیر سمیت افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
طالبان کی جانب سے پنج شیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے دعوے کے بعد دارالحکومت کابل میں جشن کے طور پر شدید ہوائی فائرنگ کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق ایک طالبان کمانڈر نے کہا کہ ‘اللہ کے فضل سے پورے افغانستان پر اب ہمارا کنٹرول ہے، پریشان کرنے والوں کو شکست ہوئی اور پنج شیر اب ہماری کمان میں ہے’۔
ابتدائی طور پر ان رپورٹس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
افغانستان کے سابق نائب صدر و اپوزیشن فورسز کے رہنماؤں میں سے ایک امر اللہ صالح نے ‘طلوع نیوز’ کو بتایا کہ ان کے ملک سے فرار ہونے سے متعلق رپورٹس جھوٹی ہیں۔
وادی پنج شیر میں طالبان اور باغیوں کا لڑائی میں بھاری نقصانات کا دعویٰ
دوسری جانب وادی پنج شیر میں لڑائی کے باوجود طالبان کو آئندہ چند روز میں حکومت تشکیل دینی ہے۔
امریکا کی جانب سے دو دہائیوں پر محیط جنگ ختم کرنے اور اپنی افواج کے مکمل انخلا کے بعد طالبان کو باغیر گروہ سے حکومتی طاقت میں منتقل ہونے میں بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔
اگرچہ مغرب نے گروپ کے حوالے سے انتظار کرو اور دیکھو کا نقطہ نظر اپنا رکھا ہے، تاہم نئے رہنماؤں سے بات چیت کے اشارے دکھائے دے رہے ہیں۔
چین نے طالبان ترجمان کے اس ٹوئٹ کی تصدیق کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ بیجنگ، کابل میں اپنا سفارتخانہ کھلا رکھے گا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے کہا کہ ‘ہمیں امید ہے کہ طالبان ایک جامع سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیں گے، اعتدال پسند اور مستحکم داخلی اور خارجہ پالیسی پر عمل کریں گے اور تمام دہشت گرد گروپوں سے واضح طور پر قطع تعلق کر لیں گے’۔
اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ اس نے ملک نے کچھ حصوں میں انسانی بنیاد پر پروازیں دوبارہ چلانا شروع کردی ہیں اور پاکستان کے دارالحکومت کو افغانستان کے شمال میں مزارِ شریف اور جنوب میں قندھار سے جوڑ دیا ہے۔
چین اپنا کابل میں سفارتخانہ کھلا رکھے گا، طالبان ترجمان
ملک کی سرکاری آریانا افغان ایئرلائنز نے جمعہ سے مقامی پروازیں بحال کردیں جبکہ متحدہ عرب امارات نے ہنگامی طبی اور کھانے پینے کی اشیا پر مشتمل جہاز بھیجا۔
ویسٹرن یونین اور منی گرام نے کہا کہ وہ رقوم کی منتقلی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر رہے ہیں، جس پر بیرون ملک مقیم رشتہ داروں کے باعث کئی افغان شہری انحصار کرتے ہیں۔
قطر نے کہا کہ وہ کابل ایئرپورٹ دوبارہ کھولنے کے لیے کام کر رہا ہے، یہ ایئرپورٹ امداد کے لیے لائف لائن ہے۔
سلووانیا کے شہر کرانج میں یورپی یونین نے طالبان سے بات چیت کے لیے شرائط پیش کیں اور سیکیورٹی کی اجازت کی شرط پر کابل سے شہریوں کے انخلا میں مدد پر رضامندی ظاہر کی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے سلووانیا میں بلاک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے بعد کہا کہ ‘ہمیں افغانستان میں نئی حکومت سے بات چیت کرنی ہے لیکن اس کا مطلب اسے تسلیم کرنا نہیں ہے، یہ آپریشنل گفتگو ہوگی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس حکومت کے رویے کے مطابق یہ آپریشنل بات چیت آگے بڑھے کی’۔