سرکاری اسکیموں کے تحت 19 بیوروکریٹس 3 رہائشی یونٹس حاصل کرنے میں کامیاب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلیٰ بیوروکریٹس کو سرکاری اخراجات پر ایک کے زائد پلاٹ کی الاٹمنٹ کے خلاف فیصلہ دیا ہے، ایسے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گریڈ 20 سے 22 کے 588 سینیئر افسران نے رعایتی نرخوں پر پُر تعیش 2 منزلہ مکانات حاصل کر رکھے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز وفاقی دارالحکومت کے نئے سیکٹرز میں الاٹمنٹ کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے معاملہ اس بات پر غور کے لیے حکومت کو بھجوادیا تھا کہ کیا بیوروکریٹس اور ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ جائز ہے۔
وفاقی حکومت کا ارادہ ہے کہ آئین کی دفعہ 25، جو سب کو یکساں مواقع فراہم کرتی ہے، پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے اس طرح کے الاٹیز کے ‘حق’ کا جائزہ لیا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیکٹر 14، 15 میں پلاٹس کی قرعہ اندازی پر حکم امتناع

ڈان کی حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق مزید یہ کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد خوش قسمت ہے کہ وہ قیمتی پلاٹوں حاصل کر سکی، جن میں سے کچھ کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف-14 اور 15 میں دو پلاٹس ملے۔
دستاویزات کے مطابق 588 بیوروکریٹس میں سے وہ 185 جنہیں کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی اراضی پر قائم پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی فاؤنڈیشن(پی ایچ اے ایف) کی ہاؤسنگ اسکیم میں گھر الاٹ کیے گئے، انہیں بھی سیکٹر-14 اور 15 میں پلاٹس ملے ہیں۔

پی ایچ اے ایف اسکیم کے تحت اعلی بیوروکریٹس کو کوری کی ریونیو اسٹیٹ میں ایک کنال، 13 مرلے اور 7 مرلے کے دو منزلہ مکانات کے ‘سرمئی ڈھانچے’الاٹ کیے گئے تھے۔
جو سی ڈی اے کے ایلیٹ ہاؤسنگ پروجیکٹ پارک انکلیو اور نجی ہاؤسنگ اسکیم بحریہ انکلیو کے نزدیک ہے۔
پی ایچ اے ایف نے روایتی طور پر اپنے اراکین کے لیے کم لاگت کی رہائشی اسکیمیں بنائی ہیں اور یہ پہلا موقع تھا جب اس نے کسی علاقے میں سینئر بیوروکریٹس کے لیے اسکیم متعارف کروائی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے نئے سیکٹرز میں ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل کردی

یہاں یہ بات مدِنظر رہے کہ سال 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم نے اسی علاقے میں بااثر بیوروکریٹس کو ’پسندیدہ‘ اپارٹمنٹس کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی تھی اور پی ایچ اے ایف کی جانب سے کی جانے والی ’ہیرا پھیری والی قرعہ اندازی‘ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
اسی طرح ایک قرعہ اندازی کے بعد فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) نے نے حال ہی میں سینئر بیوروکریٹس، اعلیٰ عدلیہ کے ججز، اسلام آباد کی ماتحت عدلیہ کے وکلا اور جوڈیشل افسران کو پلاٹ الاٹ کیے۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے زمین کے متاثرہ مالکان کے علاوہ تمام الاٹمنٹس معطل کردی۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے حالیہ کابینہ کے بعد ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے غریب گاؤں والوں کی زمین پر حکمران اشرافیہ کو جگہ دینے کے اقدام کو افسوس ناک قرار دیا۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الاٹمنٹ کا جائزہ لیا جائے گا جس میں سول سرونٹس کو ایک سے زیادہ پلاٹ کی الاٹمنٹ آئین کی دفعہ 25 کے تحت غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔
مزید یہ کہ سال 1996 میں حمید اختر خان نیازی کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے درمیان امتیازی سلوک کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور تعینات افسران کو یکساں مواقع فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں