اسلام اباد: پاکستان نے افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں کی ضرورت پر زور دیا تاکہ انسانی بحران اور معاشی تباہی کو روکا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق روس، چین اور پاکستان کے خصوصی نمائندے نے کابل کے 2 روزہ دورے کے دوران افغانستان کے وزیراعظم محمد حسن اخوند، وزیر خارجہ عامر خان متقی اور طالبان کے عبعوری حکومت کے دیگر اعلیٰ عہدیداران سے ملاقات کی اس کے بد یہ سفرا پاکستان پہنچے۔
نمائندوں نے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی قومی مصالحتی کمیشن کے سابق سربراہ عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔
افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا، وزیر اعظم
روس، چین اور پاکستان ‘توسیعی ٹرائیکا’ کے رکن ہیں جو افغانستان میں امن کے لیے کام کر رہے ہیں، امریکا بھی ٹرائیکا کا حصہ ہے لیکن اس دورے کا حصہ نہیں بنا۔
اسلام آباد پہنچنے کے فورا بعد سفیروں نے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود سے ملاقات کی۔
اس موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے پُرامن، مستحکم، خودمختار اور خوشحال افغانستان کے لیے حمایت کی دوبارہ تصدیق اور انسانی مشکلات سے نمٹنے اور معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی رابطوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
ایک عہدیدار جنہیں اس دورے کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی، انہوں نے کہا کہ سفیروں کی طالبان رہنماؤں کے ساتھ ’تعمیری مصروفیات‘ تھیں جنہوں نے انہیں عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی جلدی نہیں ہے، شاہ محمود قریشی
خیال رہے کہ بین الاقوامی برادری امدادی کارکنوں کو انسانی امداد پہنچانے کے لیے ایک جامع حکومت اور اجازت دینے والے ماحول کا مطالبہ کرتی رہی ہے جبکہ طالبان کے دور میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے بارے میں بھی خدشات پائے جارہے ہیں۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ دورے کے دوران سفیروں نے ‘ہم آواز’ ہو کر بات کی۔
ان کا بنیادی پیغام افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل، انسانی حقوق کی پاسداری، افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دینا، منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام اور انسانی بحران کو روکنے پر مشتمل تھا۔
طالبان نے سفیروں کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو مزید جامع بنانے کی کوشش کریں گے۔
طالبان نے حال ہی میں اپنی عبوری کابینہ میں توسیع کی اور غیر پختون قوموں کے کچھ لوگوں کو شامل کیا ہے لیکن سب طالبان ہیں اور کسی خاتون کو بھی اب تک حکومت میں شامل نہیں کیا گیا۔
روس کا طالبان کی ’عبوری حکومت ‘ پر تحفظات کا اظہار
عہدیدار کے مطابق طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ شمولیت کے معاملے پر مزید کام کریں اس سے پہلے کہ ان کی حکومت بیرونی دنیا کے لیے قابل قبول ہو۔
کابل تاریخی طور پر اپنے کام کے لیے غیر ملکی امداد پر انحصار کرتا رہا ہے اور ہے ایسے میں کہ جب بیشتر ممالک نے کابل کے لیے امداد روک دی ہے نئی حکومت کی معاشی بقا کے لیے بین الاقوامی پہچان بہت ضروری ہے۔
دہشت گردی کے خدشات پر طالبان رہنماؤں نے داعش اور افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے عزم کا اعادہ کیا۔
عہدیدار نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان کی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں اور امن و امان کی صورتحال سے نمٹنے کے بعد مستقبل قریب میں ان کے اسکول کھولیں گے۔
واضح رہے کہ طالبان حکام نے گزشتہ ہفتے لڑکوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیتے ہوئے لڑکیوں کے اسکولوں کا ذکر نہیں کیا تھا جس سے لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق طالبان کی پالیسی کے بارے میں نئے خدشات پیدا ہوئے تھے۔