نور مقدم قتل کیس: سیشن عدالت 12 ملزمان کے خلاف 6 اکتوبر کو فرد جرم عائد کرے گی

اسلام آباد کی سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے لیے 6 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے سماعت کی صدارت کی جس میں چالان کی کاپیاں، جو پولیس نے 9 ستمبر کو گزشتہ سماعت میں عدالت میں جمع کرائی تھیں، موجودہ ملزمان میں تقسیم کیں۔

اس کیس میں مجموعی طور پر 12 افراد پر فرد جرم عائد کی جائے گی جس میں نور مقدم کے قتل کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر، اس کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، تین گھریلو ملازم افتخار، جان محمد اور جمیل اور تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور سمیت چھ ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل ہیں۔
دوران سماعت تھراپی ورکس کے 6 ملازمین بھی 23 اگست کو ضمانت کے بعد عدالت میں پیش ہوئے۔

نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے

اگرچہ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ آج کی سماعت میں ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے گی لیکن یہ جج کی صوابدید پر ہے کہ وہ ٹائم فریم کا فیصلہ کرے جس پر مقدمہ چلتا ہے۔
زیادہ تر کیسز میں جج ملزمان اور شکایت کنندگان کو تفتیشی رپورٹ کا مطالعہ کرنے اور اس کے ساتھ موجود شواہد کی جانچ کرنے کے لیے وقت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اسے فرد جرم کے مرحلے پر چیلنج کر سکیں۔
تاہم جج بعض صورتوں میں یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ تمام دلائل مقدمے کی سماعت کے مرحلے میں سنے جائیں گے جو الزامات طے ہونے کے بعد شروع ہوتے ہیں.

چالان میں خامیاں

پولیس نے 9 ستمبر کو قتل کا نامکمل چالان پیش کیا کیونکہ مبینہ قاتل ظاہر جعفر کے موبائل فون کی جانچ پڑتال ابھی باقی ہے اور اس کا ڈیٹا عدالتی ریکارڈ میں جمع کرانے کے لیے حاصل نہیں کیا گیا ہے۔
معاملے کی تفتیش کرنے والے افسر انسپکٹر عبدالستار کے مطابق ملزم کے موبائل فون کو وقوعہ کے دن نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے ڈیٹا حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ایک درخواست عدالت میں دائر کی گئی تھی جس میں موبائل فون کی مرمت کی اجازت مانگی گئی تھی کیونکہ اس سے استغاثہ کے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے مفید شواہد مل سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں