برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے مسلم رکن پارلیمنٹ نصرت غنی کے دعوؤں کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ نصرت غنی نے دعوی کیا تھا کہ 2020 میں وزیر کے طور پر ان کی برطرفی کی وجہ ان کے عقیدے کو قرار دیا تھا۔
خبر ایجنسی سے مطابق کنزرویٹو ایم پی نے انکوائری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اتنا چاہتی ہیں کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
کنزرویٹو چیف وہپ مارک اسپینسر نے کہا کہ یہ دعوے مکمل طور پر غلط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محترمہ نصرت غنی ان کا حوالہ دے رہی ہیں اور وہ ان کے الزامات کو ہتک آمیز سمجھتے ہیں۔
کابینہ کے دفتر کی نئی انکوائری اس وقت سامنے آئی ہے جو وزیر اعظم کے لیے ایک مشکل ہفتہ ہوسکتا ہے کیوںلہ حکومتی احاطے میں ہونے والے اجتماعات کی رپورٹ کی متوقع تکمیل کے ساتھ کورونا وائرس کی پابندیاں نافذ ہیں۔
مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے فارغ کیا گیا، برطانوی خاتون رکن پارلیمنٹ کا الزام
واضح رہے کہ برطانوی خاتون رکن پارلیمنٹ کا الزام ہے کہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے فارغ کیا گیا۔
سابق جونیئر ٹرانسپورٹ منسٹر نصرت غنی نے کہا تھا کہ انہیں وزیر اعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو حکومت میں وزارتی ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا کیونکہ ان کا مسلم عقیدہ ساتھیوں کو بے چین کر رہا تھا۔
انتالیس سالہ نصرت غنی کا کہنا تھا کہ انہیں وہپ جو پارلیمانی ڈسپلن کا نفاذ کرنے والے ہیں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی “مسلمانیت” کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا تھا۔
‘مجھے بتایا گیا کہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ردوبدل کے اجلاس میں ‘مسلمانیت’ کو ‘مسئلہ’ کے طور پر اٹھایا گیا تھا، کہ میری ‘مسلم خاتون وزیر’ کا درجہ ساتھیوں کو بے چین کر رہا تھا’۔
خیال رہے کہ کنزرویٹو پارٹی کو پہلے بھی اسلامو فوبیا کے الزامات کا سامنا رہا ہے اور گزشتہ سال مئی میں ایک رپورٹ میں اس پر تنقید کی گئی تھی کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی شکایات سے کیسے نمٹا ہے۔