پنجاب اسمبلی میں نئے قائد ایوان کا انتخاب آج ہورہا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی سربراہی میں کچھ ہی دیر میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہونے والا ہے جس کے لئے ارکان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
سیکیورٹی انتہائی سخت
پنجبا سمبلی میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔
اسمبلی کے اطراف دفعہ 144 نافذ ہے ۔
’نیتیں شفاف نہیں‘
وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی نے اسمبلی آمد کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج وہ اسمبلی کے کسٹوڈین نہیں بلکہ وزارتِ اعلیٰ کا امید وار ہیں۔
پرویز الہیٰ نے کہا کہ کوشش کریں گے الیکشن شفاف ہو، لیکن نیتیں شفاف نہیں، وقت ثابت کرے گا کہ ڈپٹی اسپیکر ایماندار ہے یا نہیں۔
پارٹی پوزیشن کیا ہے؟
پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 ارکان پر مشتمل ہے اور وزیرِ اعلیٰ بننے کے لیے کم از کم 186 ووٹ درکار ہیں۔
2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں عددی اعتبار سے سن سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف ہے جس کے 183 ارکان ہیں۔
پنجاب اسمبلی کی دوسری سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) ہے جس کے ارکان تعداد 166 ہے۔
پنجاب اسمبلی میں مسلم ل؛یگ (ق) کے 10، پیپلز پارٹی کے 7 اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن ہے، اس کے علاوہ 4 ازاد ارکان ہیں۔
منحرف ارکان اصل گیم چینجر
پارٹی پوزیشن کے اتعمار سے تحریک انصاف اور (ق) لیگ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی بڑی آسانی سے وزارت اعلیٰ کا عہدے اپنے نام کرسکتے ہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف منیں کئی گروپ ہیں جن میں سب سے اہم گروپ جہانگیر ترین اور علیم خان کے ہیں۔
جہانگیر ترین اور علیم خان گروپس میں پی ٹی آئی کے 20 سے زائد ارکان ہیں، یہ دونوں گروپ پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے 5 ارکان بھی اپنی جماعت سے ناراض ہیں، جب کہ آزاد رکن اسمبلی چوہدری نثار علی خان ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔