وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ بیرونی سازش کی باتیں محض ڈرامہ، سابق دور میں نیب کو مخالفین کیلئے استعمال کیا گیا، نام ای سی ایل میں ڈال کر نکالا ہی نہیں جاتا تھا، اب حکومت ثبوت نہیں لاتی تو 120 روز بعد نام فہرست سے نکل جائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ سابق وزیرداخلہ کی طرح روزانہ پریس کانفرنس نہیں کرسکتا، جب بھی وزارت سے متعلق کوئی فیصلہ ہوگا میڈیا کو آگاہ کرتا رہوں گا، وزارت سے متعلق بریفنگ لی ہیں، میڈیا کو اہم قومی معاملات سے آگاہ رکھا جائے گا، معاشرتی اصلاح میں میڈیا کا کردار اہم ہے۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ نیب کو مخالفین کے لیے استعمال کیا گیا، اگر کسی کو ڈرانا ہوتا تھا تو نام ای سی ایل میں ڈال دیا جاتا تھا، ہم خود نیب کے متاثرہ رہے، بلاوجہ لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جاتے تھے، ای سی ایل اہم مسئلہ بن گیا تھا ، کسی کو کنٹرول کرنا ہے تو نیب کیس ڈالو اور ای سی ایل میں نام ڈال دو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے حوالے سے لوگوں سے زیادتی ہو رہی تھی، کابینہ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے، ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے حوالے سے مسائل کو حل کیا جائے گا، چار ہزار 863 لوگوں کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے، 3 ہزار لوگوں کے نام اب ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکل جائیں گے، الزام ثابت نہ ہونے پر 120 دن بعد ای سی ایل سے نام نکال دیا جائے گا، بلاوجہ حکومت کو اتنے دنوں تک نام لسٹ میں رکھنے کا حق نہیں پہنچتا، شیخ رشید سمیت کوئی بھی ہو جن کو 120 دن سے زائد ہوگئے نام نکل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو وہی سکیورٹی دی گئی جو اعظم خان نے کہی تھی، عمران خان کو فول پروف سکیورٹی، رینجرز، ایف سی، بلٹ پروف گاڑی فراہم کی جا رہی ہے، سابق وزیراعظم کے ساتھ سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر ہیں، ہم نے رولز ایسے بنائے ہیں جس سے سب کو فائدہ ہوگا، ہم نے رولز کسی جماعت کے خلاف نہیں بنائے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے، آخری میٹنگ کے منٹس، فیصلے ڈسکس ہوئے، اسد مجید بھی شریک ہوئے، اسٹیٹ منٹ بتاتی ہے سازش کے حوالے سے کوئی ایسی چیز نہیں ہے، سازش کا جو ڈرامہ رچایا گیا ایسی کوئی چیز نہیں تھی، بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، جب سفیر لوگوں سے ملتا ہے تو اس کی اپنی ایک اسسمنٹ ہوتی ہے، سازش کے غلط بیانیے کو انہوں نے خود تقویت دی، سازش پہلی میٹنگ میں اور نہ اب پائی گئی، مداخلت ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کی اپنے طور پر اسسمنٹ کر سکتے ہیں۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ شفافیت کی بڑے مثالیں دیتے تھے، خود حال یہ ہے توشہ خانہ کے تمام تحائف کو اڑا کر لے گئے، یہ اپنے فین کلب کو کراچی، پشاور میں اکٹھا کریں جب گلی، محلوں میں جائیں گے لگ پتا جائے گا، کسی کے خلاف انکوائری کے بغیر کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا، جب تک کسی کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں آتے مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا جائے گا، ہم ان کی طرح پریس کانفرنسز میں کاغذات نہیں لہرائیں گے۔