وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں وفاقی وزراء کا ایک اعلیٰ سطحی وفد لندن پہنچ چکا ہے، جہاں ان کی مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف سے ملاقات ہو رہی ہے۔ پاکستان سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور حکومت کو خود مسلم لیگ کے قائد نوازشریف نے لندن بلایا ہے اور لندن میں مذکورہ ملاقات کا مقصد ملکی حالات معاشی صورتحال قبل از وقت انتخاب کے آپشن سمیت خود ن لیگ کے قائد نوازشریف کی وطن واپسی پر غورو غوض ہونا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لندن سیاسی مشن کی ٹائمنگ کو اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اتحادی حکومت کے قیام کے بعد سے ایک عام تاثر یہ بھی رہا ہے کہ معاشی حوالے سے حکومت ٹیک آف نہیں کر پا رہی اور خصوصاً وزیراعظم میاں شہبازشریف کے کے حوالے سے جو توقعات تھیں وہ کیونکر پوری نہیں ہو پا رہیںجس پر ن لیگ کی قیادت کو تشویش ہے۔
پاکستان کیلئے بڑی مشکل اس وقت بجٹ کی تیاری ہے اور مسلم لیگ (ن) کے لندن سیاسی مشن کو بھی اس حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ن لیگ کی لیڈر شپ آنے والے انتخابات سے قبل آئندہ بجٹ کو اپنے سیاسی مستقل کے حوالے سے اہم قرار دے رہی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو سابق وزیراعظم نوازشریف نے یہ ہدایات دے رکھی ہیں کہ آئندہ بجٹ میں عوام پر براہ راست کسی قسم کا دبائو نہیں آنا چاہئے کیونکہ پہلے ہی عوام سابقہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے دبائو میں ہیں اور انہیں کسی قسم کا ریلیف نہ ملنے کے باعث ہی وہ سابقہ حکومت سے مایوس تھے۔ لہٰذا مذکورہ لندن سیاسی مشن میں کیا حکومت عوام کیلئے کسی ریلیف کا بندوبست کر پائے گی یہ اہم ہوگا اور یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ جن حالات میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے وزراء لندن گئے ہیں کیا وہ اپنی لیڈر شپ کو پاکستان کے حالات اور اب تک کی حکومتی کارکردگی پر مطمئن کر پائیں گے۔
یہ سوال بہت اہم ہے مذکورہ دورے میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ لندن کو بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ شاہد خاقان عباسی ملک کو درپیش معاشی صورتحال کے حوالے سے ہی یہ موقف اختیار کرتے نظر آ رہے تھے کہ حکومت نے حالات اس نہج پر پہنچا دیئے ہیں کہ ایک نئے مینڈیٹ کی حامل حکومت ہی اس بحران پر قابو پا سکے گی لہٰذا ان ہائوس تبدیلی کی بجائے نئے انتخابات کی جانب بڑھنا ہوگا اور ان ہائوس تبدیلی کے باوجود شاہد خاقان عباسی سے خود نئی حکومت میں شامل ہونے کو مناسب نہ سمجھا تھا اور اطلاعات یہ ہیں کہ انہوں نے لندن میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کو پاکستان میں رونما ہونے والے زمینی حقائق اور سیاسی رحجانات سے آگاہ کر رکھا ہے۔
اتحادی حکومت میں صرف مسلم لیگ (ن) ایک ایسی جماعت ہے جس میں قبل از وقت انتخابات کے آپشن پر غور و غوض ہو رہا ہے جبکہ پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتیں فی الحال اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ کسی حکومت کے قیام کے بعد انتخابات اسمبلیوں کی معینہ مدت کے بعد ہی ہونے چاہئیں تاکہ وہ حکومت کے سیاسی ثمرات سمیٹ سکیں۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کیلئے ان کی حکومت کا خاتمہ سیاسی اعتبار سے نقصان دہ ہونے کی بجائے الٹا ان کی مقبولیت کی بحالی کا باعث بن رہا ہے اور وہ اپنی حکومت کے خاتمہ کو امریکی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے عوام میں تحریک پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ان کا سارا زور نئے انتخابات کے انعقاد پر ہے لیکن سیاسی حلقوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ملک میں نئے انتخابات سے پہلے اگر انتخابی اصلاحات ممکن نہیں ہوتیں اور ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے سیاسی قیادت سنجیدگی اختیار نہیں کر پاتی تو انتخابات کے نتائج کوئی کیوں اور کیونکر تسلیم کرے گا۔
ملک میں قبل از وقت انتخابات کا آپشن زمینی حقائق اور خصوصاً نئے سیاسی رجحانات اور بگڑتے حالات میں ناگزیر بنتا نظر آ رہا ہے اور اس تناظر میں لندن میں مسلم لیگ( ن) کی بیٹھک کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ جہاں تک خود مسلم لیگ( ن) کے قائد نوازشریف کی وطن واپسی کا سوال ہے تو فی الحال تو ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا لیکن ایک بات پاکستان کی لیڈر شپ کی سطح پر طے ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل نوازشریف ملک میں موجود ہوں گے اور نئے پیدا شدہ حالات ان کی ملک میں موجودگی کو خود مسلم لیگ( ن) کے سیاسی مستقل کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
جہاں تک پنجاب میں گورنر کی تبدیلی کے عمل اور اس کے سیاسی اثرات کا تعلق ہے تو وفاقی حکومت کے فیصلہ کے بعد عمر سرفراز چیمہ سابق گورنر تو بن چکے ہیں لیکن جن حالات میں انہیں سابق کہنا پڑا وہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی نہ کوئی مائنڈ سیٹ پنجاب حکومت اور پنجاب کے معاملات میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ البتہ نئی پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان کے آئینی مناصب اور ان کے کردار کے آگے سوالیہ نشان ضرور کھڑا نظر آ رہا ہے اور پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ صدر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور گورنر جیسے آئینی مناصب پر براجمان آئین پاکستان کو فالو کرنے کی بجائے اپنی سیاسی قیادتوں کے سگنل پر سرگرم نظر آ رہے ہیں جس سے یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ کسی کو نہ ملک کے مفادات عزیز ہیں اور نہ ہی آئین پاکستان کا پاس ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو چاہئے کہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کے حوالے سے اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کریں اور کم از کم آئینی کردار کے حامل عہدوں کا سیاسی استعمال بند کیا جائے۔