سپریم کورٹ نے ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کیلئے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی پروفائل کیسز میں تفتیشی افسران تبدیل نہ کرنے کا عدالت کا حکم بر قرار ہے، چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے نظام سے باہر کسی کی رائے سے متاثر نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق احتیاط سے سوچ سمجھ کر اقدام کریں، نیب کسی پر بے بنیاد مقدمہ بنانے سے متعلق دباؤ قبول نہ کرے، اگرنیب پر دباؤ ڈالا جائے تو ہمیں چِٹھی لکھیں، اٹارنی جنرل کو مشورہ دیا کہ چیئرمین نیب قابل اور دیانتدار شخص کو ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ایسے پرانے مقدمات جن میں سزا نہیں ہوسکتی نیب خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس کیس کو چاہیں اٹھا کر پھینک دیں، ایک منشیات کا کیس تھا جس کی ہیڈ لائن لگی تھی، تفتیشی افسر سے پوچھا تو اس نے کہا یہ بوگس کیس تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈی جی ایف آئی اے اور پراسیکیوٹر نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات کی نقول سربمہر کر کے ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ اگر اداروں سے ریکارڈ غائب ہو تو سپریم کورٹ سے مل جائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے، پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کی مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔