پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے پاور سیکٹر کے افسران و ملازمین کو مفت بجلی نہ دینے کی ہدایت کر دی۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نورعالم خان کی زیرصدارت ہوا۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ پر برہمی کا اظہار کردیا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول کیوں جاری نہیں کیا جاتا۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہے جہاں چوری زیادہ ہے۔ پاور سیکٹر ایک جنجال میں پھنسا ہوا ہے۔ ہم اپنی لاگت بھی پوری نہیں کر پاتے۔کچھ کوتاہیاں اور نالائقیاں ہماری بھی ہیں۔ 80 لاکھ بجلی صارفین کو سبسڈی دی جا رہی ہے۔ دو تہائی صارفین کو سستی بجلی دیں گے تو لاگت کیسے پوری ہو گی۔اگر یکدم مفت یونٹ ختم کر دیے تو ملک بھر میں ملازمین میں افراتفری کا خطرہ ہے۔میری تجویز ہے کہ مفت یونٹ ختم کر کے ملازمین کو الائونس دے دیا جائے۔ پی اے سی نے سیکرٹری پاور ڈویژن کی تجویز تسلیم کر لی۔
شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ چوری روکنے کیلئے ڈسکوز کی اپنی سکیورٹی فورس ہونی چاہئے۔
افضل ڈھانڈلہ نے کہا کہ بڑے بڑے چور واپڈا سے ملے ہوئے ہیں، چوری کا نزلہ ایک پنکھے والے پر گرتا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کے الیکٹرک کے سی ای او کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔دوران اجلاس چیئرمین کمیٹی نے دستاویزات میڈیا کو دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو پتہ ہونا چاہئے ان کے نمائندے کیا سوالات اٹھا رہے ہیں۔میرے پاس ایک رپورٹ ہے 14 ارب روپے ایک دن میں استعمال کیے گئے۔ ثبوت کے ساتھ رپورٹ پیش کروں گا۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ کوئی غیر تصدیق شدہ یا غیر حتمی چیز میڈیا میں تقسیم نہ کی جائے۔
چیئرمین کمیٹی نورعالم خان نے کہا کہ موٹروے ریسٹ ایریاز میں پچاس روپے کی چیز سو روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔۔سیکرٹری مواصلات کا کہنا تھاکہ ریسٹ ایریاز ٹک شاپس میں اشیاء کی قیمتوں کو مانیٹر کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔