وزیراعلیٰ کا انتخاب: ق لیگی ارکان نے شش و پنج کے بعد بالآخر پرویز الہیٰ کو ووٹ دے دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس تقریباً پونے تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد بالآخر شروع ہوگیا جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے ووٹنگ کا عمل شروع کردیا۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ دوست محمد مزاری نے ایوان کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں حمزہ شہباز کو 197 ووٹ پڑے تھے جن میں سے 25 ووٹ نکالنے کے بعد ان کے ووٹوں کی تعداد 172 بنتی ہے جو کہ درکار 186 ووٹ سے کم ہے لہٰذا اب انہیں اکثریت حاصل نہیں۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے کہا کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے کسی بھی رکن کو موجودہ اراکین کی اکثریت کی حمایت درکار ہوگی۔
ووٹنگ کے عمل کے آغاز پر 5 منٹ کےلیے گھنٹیاں بجائی گئیں جس کے بعد ایوان کی تمام لابیز بند کردی گئیں، حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے دائیں جانب لابیز میں گئے، پرویز الہٰی کو ووٹ دینے والے بائیں جانب کی لابیز میں گئے۔

چوہدری شجاعت نے پرویزالٰہی کی حمایت سے انکار کردیا، مونس کی تصدیق
سابق وفاقی وزیر و مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی نے تصدیق کی ہے کہ چوہدری شجاعت نے کہا کہ عمران خان کے امیدوار کی حمایت نہیں کروں گا۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر پنجاب اسمبلی میں چوہدری شجاعت کے خط کی بازگشت سنائی دی جس کے بعد مونس الٰہی پنجاب اسمبلی سے چلے گئے تھے۔
حامد میر سے ٹیلیفونک گفتگو میں مونس الٰہی کا کہنا تھاکہ میں ماموں (چوہدری شجاعت) کے پاس گیا تھا اور انہوں نے ویڈیوپیغام ریکارڈ کرنے سے انکارکیا اور کہا کہ عمران خان کےامیدوارکی حمایت نہیں کروں گا۔

مونس الٰہی کا کہنا تھاکہ میں بھی ہار گیا ہوں، عمران بھی ہار گئے اور زرداری جیت گئے۔
ان کا کہنا تھاکہ چوہدری شجاعت نے خط میں لکھا تھا کہ کسی کو ووٹ نہیں دینا۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کا خط ڈپٹی اسپیکر کو موصول.
پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا خط ڈپٹی اسپیکر کو موصول ہوگیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ق کی پارلیمانی پارٹی نے بھی ڈپٹی اسپیکر کو خط لکھ دیا ہے۔ پارلیمانی لیڈر ساجداحمد خان نے ق لیگ کے ارکان کو پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کا پابند کیا ہے۔

پارلیمانی لیڈر کے خط میں کہا گیا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی مسلم لیگ ق کے وزیر اعلیٰ کیلئے امیدوار ہیں۔

پارلیمانی لیڈر ساجد احمد خان نے خط میں لکھا کہ ق لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس 21 جولائی کو ہوا۔

ق لیگی ارکان نے شش و پنج کے بعد بالآخر ووٹ کاسٹ کردیے
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ارکان پنجاب اسمبلی وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے حوالے سے شش و پنج کا شکار تھے تاہم بعد میں انہوں نے ووٹ ڈال دیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت کی جانب سے وزارت اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت سے انکار کردیا گیا ہے جس کے بعد ارکان کنفیوز ہوگئے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق چوہدری شجاعت نے ق لیگ کے ارکان کو خط میں ہدایت دی ہے کہ کسی کو ووٹ نہیں دینا۔

اس صورتحال کے بعد پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں مسلم لیگ ق کے ارکان کافی دیر تک ایوان میں اپوزیشن بنچوں پر موجود رہے تاہم بعد میں ایک ایک کرکے ووٹ ڈالنے چلے گئے۔

ق لیگ کے ووٹ ڈالنے والے ارکان میں شجاعت نواز ، خدیجہ عمر ، ساجد بھٹی، چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا۔

ق لیگ کے عمار یاسر اور رضوان باؤ نے بھی ووٹ کاسٹ کر دیے ہیں۔ ان تمام ارکان نے پرویز الہیٰ کو ووٹ دیا ہے۔

ن لیگ کا زین قریشی اور شبیر گجر پر اعتراض
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ن لیگ نے زین قریشی اور شبیر گجر پر اعتراض اٹھایا اور ن لیگ نے دونوں ارکان کو ایوان سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا۔ ن لیگ نے مؤقف اپنایا کہ زین قریشی نےقومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیا لہٰذا پنجاب اسمبلی میں ووٹ نہیں ڈال سکتے ، شبیر گجر کا الیکشن کمیشن میں کیس چل رہا ہے اس لیے وہ بھی ووٹ نہیں ڈال سکتے ۔

اس پر پی ٹی آئی کے راجہ بشارت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹفیکشن جاری کیا ہے، شبیر گجر ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے ن لیگ کا اعتراض مسترد کر دیا اور کہا کہ دونوں ارکان ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

اجلاس میں تاخیر
پنجاب اسمبلی کا اجلاس شام 4 بجے طلب کیا گیا تھا۔ شام 4 بجے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کیلئے ایوان میں گھنٹیاں بجائی گئیں جس کے بعد پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ایم پی ایز ایوان میں پہنچے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار پرویز الہیٰ بھی ایوان میں پہنچے تاہم اجلاس 4 بجے کے بجائے 7 بجے شروع ہوا۔

قبل ازیں پی ٹی آئی نے 186ارکان اسمبلی کو کمیٹی روم میں پہنچانے کا دعویٰ کیا اور ارکان اسمبلی کو کمیٹی روم سے باہر نہ آنے کی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ کا 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن کرانے سے متعلق فیصلہ

یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔
دوران سماعت یہ بات سامنے آئی کہ تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ کے متفقہ امیدوار پرویز الہٰی اور ن لیگ کے حمزہ شہباز نے 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب پر اتفاق کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے زبانی حکم میں کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن اب 22 جولائی کو ہوگا اور اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
نمائندہ جیو نیوز کے مطابق 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن ’رن آف‘ کی طرز پر ہوگا یعنی جو بھی امیدوار زیادہ ووٹ لے گا وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں