سپریم کورٹ نے نیب قوانین میں ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پرنیب ریفرنسز میں ہونے والی سزاؤں کا جمعہ تک ریکارڈ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے یمارکس دیے کہ جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں بنیادی انسانی حقوق کا تعلق عوامی اعتماد سے جوڑا گیا، نیب کیس مختلف ہے۔
عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ عوامی عہدے دارعوامی اعتماد کا حامل اور جوابدہ ہوتا ہے، اگرعوامی عہدے دار کرپشن کرے تو عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ میں مفروضوں پر نہیں، آئین کی بات کررہاہوں،عدالت کی ذمہ داری بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے، توہین عدالت 2012 ایکٹ لایا گیا جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، توہین عدالت کا قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت نے قانون سازوں کی عدم قابلیت پر اڑایا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف بنایا گیا قانون پارلیمنٹیرینز کی عدم قابلیت پر اڑایا جاسکتا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدم قابلیت پر نہیں بلکہ توہین عدالت قانون جانبدار ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے اس موقع پر پوچھا یہ کہاں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ کی قابلیت نا ہونے کی وجہ سے قانون کالعدم ہوا؟ عدالت نے بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی مسترد کی لیکن کبھی نہیں کہا کہ پارلیمان کی قابلیت نہیں،عدالت نے کبھی پارلیمان کی اہلیت یا قابلیت پر سوال نہیں اٹھایا۔
چیف جسٹس عنرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کہیں لکھا نہیں بلکہ سمجھ کی بات ہے، خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا اکہ اب بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینا ہے یا نہیں، عدالت دیکھے۔
بعد ازاں عدالت عظمی نے معاملہ کی سماعت17 نومبر تک کے لئے ملتوی کر دی۔