پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم اپنی تیاری کررہے ہیں اور دسمبر کے مہینے میں ہی اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔
بول نیوز کے پروگرام ’نیشنل ڈبیٹ‘ میں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے رانا ثنا اللہ کے چیلنج سے متعلق سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ اس آدمی کی باتوں کو کبھی سنجیدہ طور پر لیا ہی نہیں، ہم نے اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ کیا تھا، ہم اپنی جماعت کی مشاورت کے بعد کریں گے، ابھی تیاری کروا رہے ہیں کیونکہ جیسے ہی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، 48 گھنٹے کے بعد نگراں حکومت آ جائے گی، یعنی اس کے حوالے سے مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جب ایک دم فیصلہ کریں گے، اس کے لیے ہماری تیاری ہونی چاہیے اور وہ جلدی ہے، اس میں زیادہ دیر نہیں ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ اس حوالے سے کوئی تاریخ بتائیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ اس طرح سمجھیں دسمبر میں اسمبلیاں تحلیل کریں گے۔
’جنرل (ر) باجوہ نے کہا کہ عثمان بزدار کو ہٹائیں‘
چوہدری پرویز الہٰی کا اتحادی ہونا اور وزیر اعلیٰ بننے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ اس کے پیچھے ان کی کیا سوچ تھی، میں اس کا نہیں کہہ سکتا، ہمیں جب جنرل (ر) باجوہ نے کہا کہ عثمان بزدار کو ہٹائیں، وہ ایک بڑی عجیب سا مطالبہ تھا کہ (سابق) آرمی چیف وزیر اعظم کو کہہ رہا ہے کہ اپنے وزیراعلیٰ کو ہٹاؤ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پہلے وہ (سابق آرمی چیف) علیم خان کا کہتے تھے، میں ان سے کہتا تھا کہ علیم خان کے اوپر سنگین نوعیت کے کیسز ہیں، مجھے لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے بتایا کہ انہوں نے ناجائز طریقے سے اربوں روپے کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، اور پلاٹس بیچ دیے ہیں، ظاہر ہے اگر کسی پر ایسے الزامات ہیں تو وہ وزیر اعلیٰ تو نہیں بن سکتا۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ہم نے آخر میں مشاورت کی کہ ہم کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں، اگر ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو تبدیل کرو تو ہم کر دیتے ہیں کیونکہ اگر اس وجہ سے سازش کامیاب ہوئی، اور ہماری حکومت گئی تو کسی سے سنبھالا نہیں جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر یہ کہہ رہے ہیں، ہم پھنسے ہوئے ہیں، ایک علیم خان اور دوسرا پرویز الہٰی کا نام تھا، تو جب علیم خان کا نام لیا تو پرویز الہیٰ نے کہا کہ میں علیم خان کو سپورٹ نہیں کروں گا، پھر ہم نے پرویز الہیٰ کو دعوت دی، یہ صورتحال تھی۔
’چوہدری پرویز الہیٰ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں‘
ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ 100 فیصد پی ٹی آئی کے ساتھ مخلص ہیں، جیسا آپ کہیں گے وہ ویسا ہی کریں گے؟ اس کے جواب میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بالکل وہ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا خیال ہے کہ حکومت تھوڑی اور چلنی چاہیے لیکن انہوں نے کہا کہ جو میں بطور چیئرمین پی ٹی آئی کہوں گا، وہ مانیں گے۔
کیا پرویز الہیٰ نے ایسی کوئی شرط رکھی ہے کہ اگر دوبارہ انتخابات کے بعد دوبارہ حکومت بنتی ہے تو پرویز الہیٰ کو ہی اگلے پانچ سال کے لیے وزیراعلیٰ بنایا جائے، اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ انہوں نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی۔
کیا آپ وزیراعظم ہوتے ہوئے سابق آرمی چیف کو باس کہہ کر پکارتے تھے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق آرمی چیف وزیراعظم کے نیچے ہوتا ہے، میں جنرل (ر) باجوہ کو ساتھی سمجھا کیونکہ چیلنجز بہت زیادہ تھے، ہمیں شروع میں جنرل (ر) باجوہ کی بڑی ضرورت تھی، انہوں نے بڑی مدد کی مثلاً کورونا میں ان کے ساتھ پورا تعاون تھا، بلکہ سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی پرفیکٹ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ اپنی حد سے نکل جاتے تھے، میرا وزیراعلیٰ رکھو، یہ اس طرح ہے کہ میرے کور کمانڈر رکھو۔
آپ جیسے رجیم چینج آپریشن کہتے ہیں کیا وہ بغیر اندرونی سہولت کار کے ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل نہیں ہوسکتا، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چار اہم رہنماؤں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خرم دستگیر اور مریم نواز کہہ رہے ہیں کہ کبھی بھی عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اسٹیبلشمنٹ آپ کی بیک پر نہ ہو، انہوں نے 100 فیصد سہولت فراہم کی۔
ان سے پوچھا گیا کہ آپ کسے میر جعفر اور میر صادق کہتے تھے، اس کے جواب میں پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ جس نے بھی یہ کیا اور جن جن لوگوں نے یہ کیا وہ سارے میر جعفر اور میر صادق ہیں، جن جن لوگوں نے رجیم چینج ہونے دیا، وہ سب ذمہ دار ہیں، اور ان سب نے ملک سے غداری کی، وہ اس طرح کی کہ 7 مہینے میں سارے معاشی اشاریے دیکھیں، آپ کسی بزنس مین، سرمایہ کار یا کسان سے پوچھ لیں، آپ موڈیز اور فچ کی ریٹنگز دیکھ لیں، یعنی دشمن بھی وہ نہیں کرسکتا تھا جو پاکستان سے ہوا، ہم ڈیفالٹ کے کنارے پر کھڑے ہیں۔
حالیہ آرمی چیف کو گزشتہ آرمی چیف کی پالیسیز پر عمل پیرا نہیں رہنا چاہیے، یہ آپ کی خواہش ہے یا آپ کا مشورہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ کہتے رہتے تھے کہ اگلی باری (ن) لیگ آر ہی ہے، پی ٹی آئی کا کوئی ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہیں ہے، اب یہ خطرناک ہے کہ ایک طرف خود کو غیر سیاسی کہتے ہیں اور سیاسی بھی بن جاتے ہیں، آپ سیاست کے ماہر نہیں ہیں لیکن آپ ماہر بن جاتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے کہ ایک ہاکی کے کھلاڑی کو کرکٹ کا میچ کھلا کر سمجھو کہ وہ اچھا کھیلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب عوام نے واضح بتا دیا کہ وہ ان چوروں کے ساتھ نہیں کھڑے، یہ ایک دوسرے کو چور کہتے تھے، عوام ان کو چور سمجھتی تھی جس کی وجہ سے مجھے منتخب کیا، انہی کو پھر سے مسلط کررہے ہیں، اور سمجھ رہے ہیں کہ لوگ بھیڑ بکریاں ہیں، وہ چپ کر کے تسلیم کریں، جب عوام کا ردعمل آیا توعقل کہتی تھی کہ فوری انتخابات کروا دینے چاہئیں، انہوں نے اس حکومت کے ساتھ مل کر ہمارے اوپر ہر طرح کا تشد کیا۔
عمران خان نے کہا کہ انسان غلطیاں کرتا ہے، پیچھے ہٹ جائے، انہوں نے غلطی چھپانے کے لیے اتنی سختی کی کہ جو بھی اس کی مخالفت کرتا تھا، اس کو مارنا، ڈرانا، دھمکانا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے کیا کیا کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ جا کر کھڑی ہوگئی اور ہمارے اوپر تشدد کر دیا، اس کی وجہ سے عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ گئے۔
’نیوٹرل رہیں، انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کو سپورٹ نہ کریں‘
سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں، نیوٹرل رہیں، کسی صورت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کو سپورٹ نہ کریں۔
’انتخابات ملک اور فوج کی ضرورت‘
انہوں نے کہا کہ انتخابات ملک کی ضرورت ہے، انتخابات پاکستانی فوج کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان فوج کے ہتھیاروں کی اب ایل سیز نہیں کھل رہیں، اگر اسی طرح سیاسی عدم استحکام رہا، باہر سے سرمایہ کاری آئے گی، نہ باہر سے کریڈٹ آنا ہے تو ملک نے چلنا کیسے ہے، اس لیے انتخابات تحریک انصاب کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہماری مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے، یہ دس مہینے بعد الیکشن کروائیں یا ایک سال کے بعد انہوں نے ہارنا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کو کوئی فکر نہیں، یہ باہر بھاگ جاتے ہیں، وہاں سے این آر او لے کر واپس آ جاتے ہیں، انہیں این آر او (ون) جنرل (ر) مشرف نے دیا اور این آر او (2) جنرل (ر) باجوہ نے دیا۔
انہوں نے کہا کہ واضح ہو گیا کہ نیب ان کے نیچے تھے، ہم اپنے دور میں کوشش کرتے رہے، زور لگاتے رہے، یہ فیصلہ کرتے تھے کہ کس نے اندر جانا ہے، کس نے باہر نکلنا ہے، ہمارے ہاتھ میں نہیں تھا۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ ان کو کیسز میں ریلیف ملا جنرل (ر) باجوہ کی وجہ سے ملا؟ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ جن کے پاس پاور تھی، انہوں نے ہی ریلیف دلانا تھا، ہمارے پاس پاور نہیں تھی، وہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے، ہمیں کہتے تھے کہ اقتصادیات پر زور لگائیں، اور احتساب کو چھوڑ دیں، اعلیٰ سطح پر ہونے والی کرپشن ملک کو تباہ کردیتی ہے، سارے ترقی پذیر ممالک اس سے تباہ ہوئے ہیں لیکن جنرل (ر) باجوہ نہیں سمجھتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ شہباز شریف بہت بڑا جینئس اور پنجاب اسپیڈ ہے۔
’ڈیلی میل کے ساتھ عدالت سے باہر معاملات طے کیے‘
ان سے سوال پوچھا گیا کہ انہوں نے ڈیلی میل سے عدالت کے باہر سیٹلمنٹ کر لی ہے، اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ انہوں (شہباز شریف) نے ڈیلی میل پر کیس کر دیا اور پھر کہا کہ ہم جیت گئے، اگر یہ جیت جاتے تو ڈیلی میل کو ان کی لاگت دینی پڑتی، انہوں نے کوئی لاگت ادا نہیں کی، ڈیلی میل نے کوئی ڈیمجز نہیں دیے، انہوں نے عدالت کے باہر ان سے سیٹلمنٹ کی ہے، انہوں نے فنڈنگ پر انہوں نے معذرت اس لیے کی کیونکہ ان کو این آر اور مل چکا تھا، جب عدالت سے این آر او مل گیا، اس لیے انہوں نے واپس لیا، وہ باقی چارجز پر کھڑے رہے، انہوں نے باہر معاملات اس لیے طے کیے کہ اگر عدالت میں جاتے تو ساری چیزیں سامنے آ جاتیں، اس سے بچنے کے لیے عدالت سے باہر معاملات طے کیے۔