پشاور میں سربند تھانے پر دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں ڈی ایس پی بڈھ بیر اور ان کے 2 گن مین شہید ہوگئے، واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرلی۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس آپریشنز پشاور کاشف عباسی نے صحافیوں کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’بڈھ بیر کے علاقے میں واقع سربند پولیس اسٹیشن پر رات گئے دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار حسین اور ان کے 2 محافظ ارشاد اور جہانزیب دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں جان کی بازی ہار گئے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’متعدد سمتوں سے اور متعدد ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ یہ ایک مربوط حملہ تھا جس میں ہینڈ گرنیڈ، اسنائپر شاٹس اور خودکار بندوقوں کا استعمال کیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ پشاور پولیس نے کامیابی کے ساتھ حملے کو ناکام بنا دیا، مقتول پولیس افسر نے فرار ہونے والے دہشت گردوں کا پیچھا کیا اور انہیں گھیرنے کی کوشش کی لیکن فائرنگ کے تبادلے میں وہ اور دیگر 2 پولیس اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، حملے کے بعد مسلح دہشتگرد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے۔
خیال رہے کہ سربند تھانہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے باڑہ کے قریب واقع ہے، حملے کے بعد پولیس کی اضافی نفری کو علاقے میں بھیج دیا گیا تھا، رات بھر سرچ آپریشن کے بعد آج صبح دوبارہ آپریشن شروع کیا گیا۔
پولیس نے بتایا کہ ’ملزمان کی گرفتاری کے لیے آج صبح سربند اور آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا‘، تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
کاشف عباسی نے کہا کہ ’مسلح دہشت گرد افغانستان کی سرحد سے متصل قبائلی ضلع خیبر سے آئے تھے‘۔
شہید پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کردی گئی جس میں اعلیٰ پولیس اور فوجی حکام نے بھی شرکت کی۔
دریں اثنا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سربند پولیس اسٹیشن پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
واضح رہے کہ نومبر میں جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے حملوں میں اضافہ کیا ہے اور عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا حکم دیا ہے۔
رواں ماہ 8 جنوری کو پشاور میں تھانہ انقلاب کی حدود میں رکن قومی اسمبلی ناصر خان موسی زئی کے گھر پر نامعلوم شرپسندوں نے دستی بم حملہ کیا، ترجمان پشاور پولیس نے بتایا کہ ملزمان نے گھر کے احاطے میں حجرے (گیسٹ ہاؤس) کو نشانہ بنایا، جس سے دیوار کو جزوی نقصان پہنچا اور قریبی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔
اس سے ایک روز قبل 7 جنوری کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں عسکریت پسندوں نے پولیس موبائل پر دستی بم حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور دوسرا زخمی ہو گیا تھا۔
کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر 2022 کو سیزفائر کے خاتمے کے بعد بنوں میں دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس 8 دسمبر کو ضلع بنوں میں کنگر پل کے قریب چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا تھا۔
بعد ازاں 18 دسمبر کو بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے مرکز میں قید دہشت گردوں نے تفتیش کاروں کو یرغمال بنا کر اپنی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
سال 2022 کے دوران خیبرپختونخوا میں امن و امان کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ پولیس نے جنوبی اور شمالی وزیرستان، لکی مروت اور بنوں کے اضلاع کو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ مقامات قرار دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 2022 میں پولیس کے خلاف ٹارگٹڈ حملوں میں بھی اضافہ ہوا، دہشت گردوں سمیت جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں 118 پولیس اہلکار شہید اور 117 زخمی ہوئے۔