سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پرسماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
یہ درخواستیں جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ میں نے تحریری طور پر معروضات جمع کرادیں ہیں،میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہوسکتا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ9مئی کو کیا ہوا کیا نہیں،آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقوں کے خلاف دلائل دوں گا۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میرا موقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے،آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔
سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کیلئے حکم امتناع کی درخواست مسترد
وکیل فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے5فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں،1998میں ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلہ آیا،ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ کمانڈنگ افسر نے ایڈمنسٹریٹیو جج کو سویلینز کی فوجی اتھارٹیز کو حوالگی کی درخواست کی،کمانڈنگ افسر کی درخواست کے ذرائع نہیں بتائے گئے۔
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ کیا یہ درخواستیں پہلے ہائیکورٹ میں نہیں جانی چاہئیں تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا،یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابل سماعت ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا درخواستیں قابل سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہونے والا جرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہو، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگتا ہے؟