فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر سماعت میں خیبر پختونخوا حکومت نے فیصلے کے خلاف درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کی۔
سماعت کے آغاز میں درخواست گزار جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بینچ کے ممبران پر ہمارا اعتراض ہے بینچ بڑا ہونا چاہیے تھا۔
جواد ایس خواجہ کے وکیل نے 9 رکنی بینچ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں یہ تاثرنہیں جانا چاہیے کہ فیصلے کا دار و مدار بینچ تشکیل پر تھا۔
جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے کہا ملزمان زیر حراست ہیں، ان کے اہلخانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں لہٰذا عدالت اہلخانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے۔
وکیل نے کہا یہ سوال باقی نہیں رہنا چاہیے کہ 9 رکنی بینچ ہوتا تو فیصلہ مختلف ہوتا، یہ اس ادارے پر عوام کے اعتبار کا معاملہ ہے، عدالت کمیٹی کو 9 رکنی بینچ تشکیل دینے کا کہے۔
دوسری طرف خیبرپختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنزکا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی۔
کے پی حکومت کے وکیل نے کہا انٹراکورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں، صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کردی ہے۔
سپریم کورٹ ججز نے خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل سے کہا کہ کابینہ قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے، مناسب ہوگا کہ آپ اپیلیں واپس لینے کیلئے باضابطہ درخواست دائرکریں۔
فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست گزاروں نے نجی وکلا پربھی اعتراض اٹھایا، وکیل فیصل صدیقی نے کہا سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے 5 اپیلیں دائرکر رکھی ہیں جبکہ بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلا کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائرکی ہیں تو عوام کا پیسہ نجی وکلا پر کیوں خرچ ہو۔
وکیل احمد حسین نے بھی کہا کہ بینچ کی تشکیل کیلئے مناسب ہوگا کہ معاملہ دوبارہ ججزکمیٹی کوبھیجا جائے، پہلے بھی 9 رکنی بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پہلے 9 رکنی بینچ بن جاتا تو آج اپیلوں پر سماعت ممکن نہ ہوتی۔
احمد حسین نے کہا سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دے کر ٹرائل کالعدم قرار دیا ہے اور اگر 6 رکنی بینچ اب اسے 4-2 سے کالعدم قرار دے تو یہ متنازع ہو جائے گا اور عدلیہ پر عوامی اعتماد کیلئے ضروری ہے کہ فیصلہ متنازع نہ ہو۔
سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ زیرحراست افراد کے مقدمات کی تفصیلات داخل کریں اور بتائیں کہ 103 افراد میں سے کتنے افراد کی بریت بنتی ہے اورکتنے لوگ بےگناہ ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جمعرات 28 مارچ تک ملتوی کر دی۔