سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ایم کیو ایم رہنما مصطفی کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر ٹی وی چینلز کو نوٹسز جاری کردیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کرنا اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں،مصطفی کمال سمجھتے ہیں توہین عدالت نہیں کی تو معافی قبول نہیں کریں گے،جب مصطفی کمال نے توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟۔
چین کی ترقی ہم سب کیلئے قابل تقلید مثال ہے، وزیر اعظم
چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی، فیصل واوڈا اور کمال مصطفی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مصطفی کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر دوسرے روز پریس کانفرنس کی؟ مصطفی کمال کے وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیوں آپ لوگ فیصل واوڈا سے متاثر نہیں ہیں، بطور آفیسر آف کورٹ بتائیں آپ کے موکل نے توہین کی یا نہیں۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مصطفی کمال نے توہین نہیں کی، مصطفی کمال نے ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی، عدالت غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی ختم کردے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں، ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں؟
پاکستان کی برآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر 3 سال بعد 19 فیصد کا بڑا اضافہ
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے زیر التوا ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنے اپنے امور کی انجام دہی کریں، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پر تنقید کریں، اگر پاکستان کی خدمت کیلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر مصطفی کمال سمجھتے ہیں کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کریں گے، آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے، قوم کو ایک ایسی پارلیمنٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو۔
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے کہا کہ آپ تو سینیٹر ہیں سینیٹ تو ایوان بالا ہوتا ہے، سینٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کہے عدالتوں میں تاخیر سے فیصلے ہوتے ہیں تو منصفانہ تنقید ہے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کی بھی ضرورت نہیں ہمیں قائل کریں نوٹس واپس لیتے ہیں۔