اسلحے کے زور پر طالبان کے افغانستان پر قبضے کے حامی نہیں،پاکستان

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کی سمت آگے بڑھنے کا واحد راستہ افغانوں کے مابین مفاہمت، بقائے باہمی اور بات چیت سے ہے۔ پاکستان کسی صورت تشدد اور اسلحے کے زور پر طالبان کے افغانستان پر قبضے کی حمایت نہیں کرے گا۔افغان میڈیا کو دیئے گئے انٹرویو میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان حکومت کے ایسے مستقبل کے انتظام کی حمایت کی کرے گا، جو تمام افغانوں کے لئے قابل قبول ہے۔ پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہ نہیں۔ طالبان کے افغانستان پر اسلحہ کے زور پر قبضہ کے حامی نہیں۔انہوں نے کہا کہ امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے افغان رہنما لچک کا مظاہرہ کریں۔ طالبان کی پاکستان میں کوئی محفوظ پناہ گا نہیں، زیادہ تر افغان طالبان کی قیادت افغانستان میں ہے۔ کوئٹہ اور پشاور شوریٰ کے بارے میں ایک دہائی سے سن رہے ہیں، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔افغانستان سے متعلق پالیسی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہمسایہ ملک میں امن اوراستحکام دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ایک مستحکم افغانستان ہمیں علاقائی رابطہ فراہم کرتا ہے جس کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کہتا چلا آ رہا ہے مسئلہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں۔ افغانستان سے متعلق فیصلے افغانوں نے کرنے ہیں، ہم صرف ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم امن کے لیے افغانستان کے پارٹنر ہیں۔انٹرویو کے دوران جب افغان امن عمل کی حیثیت اور اس سلسلے میں پیشرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے بارے میں آپ افغان قیادت سے پوچھ سکتے ہیں۔انٹرا افغان مذاکرات میں پاکستان ٹیبل پر نہیں بیٹھے گا۔ جب ضرورت ہو گی تو ہم ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔ افغان طالبان کی زیادہ تر قیادت افغانستان ہیں اور افغانوں کو ان کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے۔ دوحہ میں مذاکرات کرنے والی طالبان قیادت مختلف ممالک کا دورہ کرتی ہے۔ پاکستان امن چاہتا ہے، پاکستان نے ہمیشہ جنگ بندی کے نتیجے میں ہونے والے تشدد میں کمی کی حمایت کی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں مذاکرات اور تشدد کو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ میرے خیال میں افغان طالبان بھی امن چاہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو تشویش ہے افغانستان ایک اور خانہ جنگی میں ڈوب جائے گا ، لیکن میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہوگا۔ اسی لئے میں کہہ رہا ہوں افغان قیادت ایک ساتھ بیٹھ کر آگے کی راہ تیار کریں، افغانوں کو ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا۔ افغانستان میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کا پاکستان ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ایک اچھے پڑوسی کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں جس کی ہماری خواہش ہے تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان بین الاقوامی سرحد کو قبول کر لے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی کو پاکستان میں تخریبی سرگرمیاں کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ افغانستان میں نئی دہلی کے 4 قونصلیٹ ہیں۔ کابل کے نئی دہلی کیساتھ خودمختار اور دو طرفہ تعلقات ہیں اور افغانستان کو ہندوستان کے ساتھ خودمختار اور دوطرفہ تعلقات کا پورا حق ہے۔ آپ ان کے ساتھ تجارت کرتے ہیں وہ آتے ہیں اور افغانستان میں ترقیاتی کام کرتے ہیں۔وفاقی وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ہم نے بھارت کے ساتھ قیام امن کے سلسلے میں پہل کی ، لیکن نئی دہلی کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔ بھارت نے ایسے اقدامات اٹھائے جن سے دونوں ممالک کے مابین ماحول متاثر ہوا، پھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سیاسی صورتحال ہے، اسے غلط سمجھا جارہا ہے۔ افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان امریکا کوکوئی ایئر بیس نہیں دے رہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں