ہم فوج کو پابند کریں گے وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے، چیف جسٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں ریمارکس دیئے کہ ہم فوج کو پابند کریں گے وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے، میں کبھی نہیں چاہوں گا اس ملک کی فوج اپنے شہریوں پر بندوق اٹھائے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ،جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔

اعتراز احسن کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل پر ازخود نوٹس لینے کی استدعا پر چیف جسٹس کی آبزرویشنز کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے جبکہ جسٹس یخیی آفریدی نے استفسار کیا کہا کہ بتائیں آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 175/3کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا آئین میں ایسی اور کوئی شق ہے جس کی بنیاد پر آپ بات کر رہے ہیں ، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175کے زمرے میں نہیں آتا، میں آپ کے سوال کو نوٹ کر لیتا ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق مقننہ کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے، بنیادی انسانی حقوق کا تصور یہ ہے کہ ریاست چاہیے بھی تو واپس نہیں لے سکتی۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ کہ انصاف تک رسائی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فوجی عدالتیں ٹریبونل کی طرح ہیں جو آرمڈ فورسز سے وابستہ افراد اور دفاع کے متعلق ہے ۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم اب آئینی طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں، کیسے ملٹری کورٹس میں کیس جاتا ہے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ بنیادی انسانی حقوق کو قانون سازوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا،یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پارلیمنٹ کچھ جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کرے اور دوسری پارلیمنٹ کچھ جرائم کو نکال دے یا مزید شامل کرے، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت تو ائین پاکستان نے دے رکھی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک کا بھی کہنا تھا کہ اگر ملٹری کورٹس کورٹ آف لاء نہیں تو پھر یہ بنیادی حقوق کی نفی کے برابر ہے، آرٹیکل 175کے تحت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا ذکر ہے، آئین کا آرٹیکل 175تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی بات کرتا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اور آئین فورسز میں واضح لکھا ہے ، یہ قانون ان افراد سے متعلق ہے جو آرمڈ فورسز کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالتی استفسار پر کہا کہ میں 2015 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہوں گا، فیصلے میں ملٹری تنصیبات پر حملے کا ذکر بھی موجود ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایسے افراد کے لیئے کیا ایک متوازی جوڈیشل سسٹم بنا دیا گیا، اس کلوسیو دائرہ اختیار ملٹری کورٹس کو دیا گیا تاکہ کوئی کہہ بھی نہ سکے کہ انسداد دہشتگری کے عدالت ٹرائل کیوں نہیں کر رہے؟

جسٹس یخیی آفریدی نے کہا کہ میں تو یہی سمجھا ہوں کہ آپ کہہ رہے ہیں ، ملٹری کورٹس عدالت کی کیٹیگری میں آتے ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں آئین میں ترمیم اس لیے کرنا پڑی تب ملزمان کا آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں تھا، اب اپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئینی ترمیم اس لیے ضروری نہیں کہ موجودہ ملزمان اور آرمڈ فورسز کے درمیان تعلق موجود ہے، یہ آپ نے اچھی تشریح کی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ کہ21 آئینی ترمیم کے زریعے قانون بنایا گیا تھا آج ایسا نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کہ کورٹ مارشل ملک کے خلاف جنگ کرنے والوں کیلئے ہے، قانون کے موجودگی کے باوجود بھی 2015 میں قانون لایا گیا، قانون کی موجودگی میں ترمیم لانا سمجھ میں نہیں اتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ تعلق جوڑنے کے حوالے سے کوئی معیار تو ہونا چاہیے ، آپ شہریوں کے بنیادی حق کم کررہے ہیں تو اسکا کوئی معیار ہونا چاہیے، بینچ کے ممبران جون سے کام کررہے ہیں، شہریوں کے بنیادی حقوق اور آرٹیکل (3) 8 کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ متوازی عدالتی نظام کے حوالے سے خدشات اپنی جگہ ہیں ، اپنے دلائل میں متوازی عدالتی نظام بارے بھی بتائیے گا، کسی ترمیم اور نوٹیفیکشن کے بغیر اپ نے عدالت میں دلائل دئیے۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی جلدی میں ہے نہیں جانتا کیا ہوگا، مجھے دلائل کیلئے ڈیڑھ گھنٹہ مزید چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ اپیل دینے کے معاملے ہر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے، اپیل کے معاملے پر غور کرنے کی وجوہات ہیں، اپیل میں دشمن ممالک کے جاسوس ،دہشتگرد،آرمڈ فورسز کے ممبران کو بھی مد نظر رکھنا ہے، میں اپنا بیان ہیڈ کوارٹر کے پرنسپل سٹاف افیسر کی جانب سے دے رہا ہوں ۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلے مرتبہ نو مئی جیسا واقع ہوا، پہلی تحریکوں میں فوج کی انسٹالیشن پر حملے نہیں ہوتے تھے، کیا یہ کہا جائے کہ فوج ہر حملہ ہو تو وہ جواب سے پہلے اسکی ایف آئی ار کٹوائے، فوج جوان کو صرف ایک چیز حملہ کے جواب میں گولی چلانا آتی ہے۔

جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر ایسا تھا تو گولی چلائی کیوں نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے جو یقین دہانیاں کروائی تھیں اج بھی ان پر قائم ہیں، آپ نے ساری صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، جنہوں نے اس عدالت کو فعال بنانے میں مدد کی ہے ان کیلئے دل میں احترام ہے، نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنجیدہ ہے۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں کبھی نہیں چاہوں گا اس ملک کی فوج اپنے شہریوں پر بندوق اٹھائے، فوج سرحدوں کی محافظ ہے، میانوالی ایئربیس کی دیوار گرائی گئی، وہاں معراج طیارے کھڑے تھے۔

جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ ہم فوج کو پابند کریں گے وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے، میں نہیں چاہتا کہ افواج پاکستان شہریوں پر بندوقیں تانے لیں، فوج کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔

اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے عدالت سے چھٹیوں پر جانے سے فیصلہ کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں ذاتی طور پر حاضر ہوں، روز رات 9بجے تک بیٹھتا ہوں، اس بنچ کے ممبران کا بھی حق ہے وہ اپنا وقت لیں، ایک ممبر کو محرم کی چھٹیوں سے بھی واپس بلالیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور یہ عدالت بھی، میرے ایک ساتھی جج نے ایک اہم ذمہ داری نبھانی ہے ، میں وہ یہاں بتانا نہیں چاہتا، کچھ ججز کو صحت کے سنگین ایشو ہوسکتے ہیں، کچھ ججز کو چھٹیوں کی ضرورت ہے لیکن عدالتی امور چلتے رہنے چاہئیں اس لئے میں دل سے کوشش کررہا ہوں۔

بعد ازاں عدالت نے ملڑی کورٹ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔

Comments

اپنا تبصرہ بھیجیں