چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ازخود نوٹس کسی کے کہنے پر نہیں، بنچ کی مرضی سے لیا جاتا ہے، آئین ہی فیڈریشن کو متحد کرتا ہے، جتنی مرضی تنقید ہو آئین کا دفاع کرینگے۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آئین کی تشریح آج کے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے کرنی ہے، آئین ایک زندہ دستاویز ہے، آرٹیکل 63 اور 64 دونوں میں سیٹ خالی ہو جاتی ہے لیکن دونوں ایک نہیں ہیں، ہم نے آئین کے اصولوں کو دیکھنا ہے، انفرادی طور پر لوگوں کے عمل کو نہیں، سپریم کورٹ کو 25 منحرف اراکین سے کوئی غرض نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کو سینیٹ انتخابات سے متعلق عدالتی رائے پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش ہے تو درخواست کیوں نہیں دی، محترم عدالت اور ایگزیکٹو کے فنکشنز میں فرق ہوتا ہے، عدالت واقعہ کے رونما ہونے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ ٹھیک ہوا یا غلط، ریکوڈک کے معاملے پر ججز کے سامنے کتنے شواہد آئے تھے مخدوم علی خان کو معلوم یے، ازخود نوٹس کے اثرات کی مثال دی جاتی ہے، ریکوڈک میں ایگزیکٹو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوئی، اگر کوئی معاملہ عدالت کے سامنے لانا چاہتے ہیں تو درخواست دیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق صدارتی رائے پر عملدرآمد میرے موکل کی نہیں الیکشن کمیشن کی کوتاہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق ایک درخواست دکھا دیں آپ کی جماعت کی طرف سے آئی ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہیہ بات سوچیں کے یہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے اور تمام متاثرہ فریقین نے اسی کے سامنے آنا یے۔