کسی منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ کن اصولوں پرنہ گنا جائے، چیف جسٹس عمرعطابندیال

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ق لیگ کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ کسی منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ کن اصولوں پر نہ گنا جائے۔

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل بابراعوان نے دلائل میں کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا۔ مدت کا تعین نہ ہوتو نااہلی تاحیات ہوگی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کوئی امیدوارآئندہ الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا تب بھی نااہل ہوگا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہوجائے گی۔ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے۔ جب تک نااہلی کا ڈکلیریشن عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقراررہے گی۔

جسٹس اعجازاالاحسن نے کہا کہ یوٹیلیٹی بلزکی عدم ادائیگی پرنااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔
بابراعوان نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 63 اے پر کوئی ڈی سیٹ ہو اور پندرہ دن بعد دوبارہ پارلیمنٹ آجائے۔ ہوسکتا یے دوبارہ منتخب ہوکر کوئی وزیر بھی بن جائے۔ ایسا ہو جانا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ مذاق یے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ قانونی اصلاحات کریں۔ توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
جسٹس مظیرعالم نے کہا کہ آرٹیکل 63 (1) جی پڑھ لیں۔ آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں۔

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ انحراف کرنا بڑا سنگین جرم ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میری نظرمیں آرٹیکل 63(1)جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم یے۔ آرٹیکل 63(1) جی عدلیہ فوج کی تضحیک اورآئیڈیا لوجی آف پاکستان سے متعلق ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے بابراعوان سے مکالمے میں کہا کہ ہم نے آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں نااہلی کی معیاد نہ ہونے پر تاحیات نااہلی ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا آرٹیکل 62 ون ایف کے ساتھ تعلق کیسے بنتا ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ میری دلیل ہے کہ آرٹیکل 63 اے بذات خود منحرف رکن کو تاحیات ناہل کرتا ہے۔ کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ 26 ارکان پارٹی چھوڑ جائیں۔ اس طرح تو اکثریتی جماعت اقلیت میں آجائے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کرسکے۔
وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے علاوہ بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں کینسر کا علاج کرنے کیلئے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63 اے میں بنائی گئی۔ اٹھارویں ترمیم دراصل متفقہ ترمیم تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں۔ کیا عدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟
بابراعوان نے مشرف مارشل لاء توثیق کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو آئینی ترمیم کا اختیار دیا تھا۔ عدالت کے اختیارات لامحدود ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مجھ سمیت سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے اب بہت ہو چکا۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیے کہ ان فیصلوں کا حوالہ سن سکیں۔ سپریم کورٹ آخری امید ہے اس کے بعد سڑکیں اور جلسے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہئے دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہئے۔ آئین کے تابع پارلیمان، ایگزیکٹواورعدلیہ ہونی چاہئے۔
بابر اعوان نے کہا کہ عدلیہ ہی سب کو آئین کے تابع کرسکتی ہے۔ عدلیہ صرف آئین کی تشریح نہیں کرتی بلکہ اپنے فیصلوں سے قانون وضع کرتی ہے۔ آئین کے دیباچہ کی بنیاد اسلام ہے۔

وکیل تحریک انصاف نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں لوگ سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ عوام انصاف ہوتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل ن کیا آزاد رکن اسمبلی سے پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے حلف لیا جاتا یے. کیا آزاد رکن یہ حلف دیتاہے کہ وہ پارٹی کے ہر فیصلے کا پابند ہوگا.

وکیل ق لیگ اظہر صدیق نے کہا کہ پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے آزاد رکن تمام شرائط تسلیم کرتا ہے۔ منحرف ارکان سے قران پر حلف لیا ہے کہ ووٹ ہمیں ڈالنا ہے۔ یہ تلخ حقائق ہیں اس میں نہیں جانا چاہتا۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے منحرف ارکان کیخلاف کارروائی کا فورم مہیا کرتا ہے۔
اظہرصدیق نے جواب دیا کہ منحرف ارکان ووٹ ڈال ہی نہیں سکتے۔ کیا عدم اعتماد کی تحریک وزیراعظم کی شکل پسند نہ ہونے پر بھی آسکتی ہے۔

جسٹس جمال خان منوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی سزا منحرف رکن کی رکنیت کا خاتمہ ہے۔ کیا آپ منحرف رکن کی سزا میں اضافہ چاہتے ہیں۔
وکیل ق لیگ نے کہا کہ سزا میں اضافہ میرا کیس نہیں ہے۔ آرٹیکل 63 اے تحریک عدم اعتماد کیخلاف حفاظتی دیوار ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمارنہیں ہوگا تو اسے سزا کیسے ملے گی۔ روایت بن گئی ہے کہ پیسوں سے حکومت گرائی جاتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چند لوگوں کی خریدو فروخت سے 22 کروڑعوام کا مستقبل داؤ پرہوتا ہے۔

مسلم لیگ ق نے منحرف اراکین پرتاحیات نااہلی کے اطلاق کی مخالفت کردی
وکیل ق لیگ اظہرصدیق نے کہا کہ منحرف اراکین کا ووٹ گنا نہ جائے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ ووٹ کیوں نہ گنا جائے؟

اظہر صدیق نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے عدم اعتماد کی تحریک کیخلاف حفاظتی دیوار ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کی دلیل ہے الیکشن ہارنے والے حکومت گرانے کی کھوج میں لگ جاتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگرمیثاق جمہوریت پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوتیں توآج یہ آئین پاکستان کا حصہ ہوتا۔ رکن منحرف کیوں ہوا یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ ہارس ٹریڈنگ اگر کرپشن ہے تو اس کے خلاف انسداد بدعنوانی کے قوانین موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے ق لیگ کے وکیل سے مکالمے میں پوچھا کہ کسی منحرف رکن کا دیا گیا ووٹ کن اصولوں پرنہ گنا جائے؟
ق لیگ کے وکیل اظہرصدیق تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے، چیف جسٹس عمرعطابندیال نے پوچھا بتائیں کس قانون، کس اتھارٹی کے تحت منحرف رکن کا ڈالا گیا ووٹ نہ گنا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ تو اوپن ووٹنگ ہوتی ہے۔ حق میں ووٹ ڈالنے والوں کو گیلری کی طرف جانے کا کہہ دیا جاتا ہے۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل اور ق لیگ کے وکیل سے دلچسپ مکالمہ ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کے تو دو اراکین منحرف ہوئے آج کل وہ وزیر ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کچھ دیرکیلئے مان لیتے ہیں منحرف ہونا جمہوریت اور ملکی استحکام کے خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ منحرف ہونا غلط ہے تو اس کا پھل غلط کرنے والے لوگ کیوں کھائیں۔

چی جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر بحث لازم ہے۔ پہلے مرحلے میں تو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پرتو بحث ہی نہیں کرائی گئی۔
سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ق کے وکیل سے کل تک اہم سوال کا جواب مانگ لیا

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے پچھا کہ بتائیں کیوں، کیسے اور کن اصولوں کی بنیاد پر منحرف اراکین کا ڈالا گیا ووٹ نہ گنا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرسوں تک اٹارنی جنرل باقاعدہ چارج سنبھال لیں گے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل دن بارہ بجے تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں