افواج پاکستان, چیلنجز, خدمات, قربانیاں

تحریر: کنول زہرا
افواج پاکستان مغربی اور مشرقی محاذوں پر چیلنجز اور خطرات کے سمیت ہائبرڈ وارفیئر سے بھی نبرد آزما ہیں, اس کے علاوہ دھرتی کے بیٹے معاشی محاذ پر بھی مادر وطن کے لئے سینہ سپر ہیں, اسی لیے انہوں نے کبھی دفاعی بجٹ میں اضافے کا مطالبہ نہیں کیا۔
گزشتہ پچاس سالوں کے دوران، پاکستان کا دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر گر گیا ہے، جو کہ 1970 کی دہائی میں جی ڈی پی کے 6.50 فیصد سے 2021 میں 2.54 فیصد تک گر گیا ہے۔ بجٹ 2021-22 میں ‘ڈیفنس سروسز’ کے لیے کل 8,487 ارب روپے کے بجٹ کے وسائل میں سے 1,370 بلین روپے مختص کیے گئے تھے جو کل بجٹ کے وسائل کا محض 16 فیصد ہے۔  اس 16 فیصد مختص میں سے پاکستان آرمی کو 594 ارب روپے ملتے ہیں۔ درحقیقت، پاکستانی فوج کو کل بجٹ کے وسائل کا 7 فیصد حصہ ملتا ہے۔ پاک فوج نے سال 2019 میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنے بجٹ میں مختص 100 ارب روپے بھی ترک کر دیے تھے۔ • اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی حالیہ رپورٹ نے پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے 40 ممالک کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر رکھا ہے، جو 2020 کے مقابلے میں ایک پوزیشن نیچے ہے، جو پاکستان کی فوج کے فوجی اخراجات پر کم خرچ کرکے حکومت کی مدد کرنے کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔
ملٹری ایکسپینڈیچر ڈیٹا بیس اور انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ملٹری بیلنس کے مطابق پاکستان (2.54 جی ڈی پی) کے مقابلے دفاع پر زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں عمان (جی ڈی پی کا 12 فیصد) لبنان (10.5 فیصد)، سعودی عرب (10.5 فیصد) شامل ہیں۔ 8 فیصد، کویت (7.1 فیصد)، الجزائر (6.7 فیصد)، عراق (5.8 فیصد)، متحدہ عرب امارات (5.6 فیصد)، آذربائیجان (4 فیصد)، ترکی (2.77 فیصد)، مراکش (5.3 فیصد)، اسرائیل (5.2 فیصد) )، اردن (4.9 فیصد)، آرمینیا (4.8 فیصد)، مالی (4.5 فیصد)، قطر 4.4 فیصد، روس 3.9 فیصد، امریکی 3.4 فیصد اور ہندوستان (3.1 فیصد)۔ یہ فرق فنڈز کی اصل تقسیم پر غور کرتے وقت اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے 8.8 بلین امریکی ڈالر کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں بھارت 76 بلین امریکی ڈالر، ترکی 22.1 بلین امریکی ڈالر، جنوبی کوریا 46.32 بلین امریکی ڈالر، جاپان 47.2 بلین ڈالر، سعودی عرب 46.32 بلین ڈالر، ایران 15.34 بلین امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ یورپ میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی بالترتیب 68.4 بلین ڈالر، 56.6 بلین ڈالر اور 56 بلین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ چین 230 بلین امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے اور امریکہ دفاعی بجٹ پر 801 بلین ڈالر خرچ کر کے اعدادوشمار میں سب سے آگے ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، ہندوستان کے 76.6 بلین ڈالر کے فوجی اخراجات دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس میں 2020 سے 0.9 فیصد اور 2012 سے 33 فیصد اضافہ کیا گیا۔ ہندوستانی دفاعی بجٹ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 9 گنا زیادہ ہے۔ •اگرچہ پاکستان کے پاس دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے، لیکن اس کے اخراجات سب سے کم ہیں۔ امریکہ 392000 ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے، سعودی عرب 371000 ڈالر خرچ کرتا ہے، بھارت 42000 ڈالر خرچ کرتا ہے، ایران 23000 ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ پاکستان ہر سال 12500 ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔دفاعی بجٹ کو کم سے کم تک محدود رکھنے کے علاوہ، پاک فوج نے سال 2019 میں دفاعی بجٹ کی مختص رقم کو منجمد کرنے کا بھی اقدام کیا مگر مادر وطن کے دفاع پر کوئی آنچ نہیں آنے دی, دنیا کی عصری افواج کے مقابلے میں کم دفاعی بجٹ ہونے کے باوجود، پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے پیشہ ورانہ معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونے دیا، نئے روایتی ہتھیار, سائبر وارفیئر کی صلاحیتوں، میزائل اور جوہری ٹیکنالوجی میں تازہ ترین پیش رفت کو شامل کیا ہے۔گلوبل فائر پاور انڈیکس پاک فوج  کا شمار دنیا کی 9ویں طاقتور ترین فوج میں ہوتا ہے اور یہ واحد فوج ہے۔ دنیا کی فوج جس نے دہشت گردی کی لعنت کو کامیابی سے شکست دی ہے۔تنخواہ اور الاؤنسز، پروکیورمنٹس، کسٹمز کی مد میں پاکستانی فوج نے مالی سال 2020/21 میں  28 بلین کا حصہ بھی براہ راست ٹیکس کے طور پر سرکاری خزانے میں دیا ہے  ترکی کی ایک کمپنی کارکی کراڈینیز الیکٹرک یوٹرم (کارکی) بدعنوانی میں ملوث پائی گئی، سول اور فوجی قیادت پر مشتمل ایک کور کمیٹی نے ترکی، سوئٹزرلینڈ، لبنان، پاناما اور دبئی (یو اے ای) میں بدعنوانی کے شواہد کو بے نقاب کیا۔ یہ ثبوت کور کمیٹی کی جانب سے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس  ٹریبونل کے سامنے پیش کیے گئے۔ پاک فوج نے کارکے تنازعہ کو خوش اسلوبی سے حل کیا اور ترکی طرف سے عائد پاک امریکی ڈالر کا 1.2 بلین جرمانہ بچایا۔ اگر تنازعہ طے نہ ہوتا اور پاکستان رقم ادا کر دیتا تو پاکستان کی جی ڈی پی تقریباً 2 فیصد تک سکڑ جاتی اور پاکستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں میں کوتاہی کرتا۔چودہ
اگست 2020 کو صدر پاکستان نے آئی ایس آئی کے تین افسران کو ستارہ امتیاز کے سول ایوارڈ سے نوازا جنہوں نے کارکے تنازعہ کے کامیاب حل میں اہم کردار ادا کیا.
ریکو ڈک
آرمی چیف کی قیادت میں فوج کی ان گنت کوششوں کی وجہ سے، پاکستان کو ریکوڈک کیس میں 11 بلین ڈالر کے جرمانے سے بچایا گیا اور اس منصوبے کی تشکیل نو کی گئی جس کا مقصد بلوچستان میں اس جگہ سے سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر کی کھدائی کرنا تھا۔ ریکوڈک معاہدہ سی او اے ایس کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ تھا کیونکہ انہوں نے تمام فریقین کو قومی اتفاق رائے کے لیے قائل کیا۔ ریکوڈک معاہدہ گزشتہ تین سالوں میں کئی دور کی بات چیت کے بعد طے پایا ہے۔ ریکوڈک ممکنہ طور پر دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کان ہوگی۔ یہ پاکستان کو قرضوں سے نجات دلائے گا اور ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرے گا۔ ریکوڈک وفاقی، صوبائی حکومتوں اور بلوچستان کے عوام کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف پاکستان کا سرمایہ کاری دوست امیج بحال ہو گا بلکہ اس سے بڑے اقتصادی فوائد بھی حاصل ہوں گے، مقامی معدنیات کی تلاش کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں بلوچستان کے لوگوں کے لیے ایک اہم سماجی و اقتصادی فروغ حاصل ہو گا۔  نئے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے لیے سماجی و ماحولیاتی فوائد شامل ہیں8000 ہنر مند اور غیر ہنر مندوں کے لیے براہ راست ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے گا جبکہ 12000 بالواسطہ نوکریاں بھی فراہم کیں, جس کے تحت سی پیک کے پروجیکٹ میں راستے اور بندرگاہوں کو بھی فعال کیا جائے گا, درآمد / برآمد اور مواد کی نقل و حمل, نئے انفراسٹرکچر کی ترقی بشمول تجارتی راستوں، بہتر کنیکٹیویٹی اور تجارتی راہداریوں میں توسیع جس میں علاقوں میں  شامل ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے خدشات کو دور کرنا

پاک فوج کی انتھک کوشش  کی بدولت پاکستان کے لئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے مثبت اشارہ دیا ہے.

پاکستان نے فیٹف کی جانب سے دئیے گئے 34 پوائنٹس جس میں ٹیرر فنایسنگ کے 27میں سے27 اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 اہداف پر عمل کرکے یقینی بنایا, جس میں چار سال کا عرصہ لگا, اس اہم ٹاسک میں بھی افواج پاکستان نے حکومت اور قومی اداروں کیساتھ ملکر کلیدی کردار ادا کیا, مادر وطن کے ازلی دشمن ہندوستان کی کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے تاہم الله کے کرم سے پاک فوج نے دشمن کی اس سازش کو بھی ناکام بنایا, اس حوالے سے 2019  میں حکومت کی مشاورت سے افواج پاکستان کے سربراہ کے احکامات پر جنرل ہیڈ کوارٹر میں  اسپیشل سیل برائے اینٹی منی لانڈرنگ اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ قائم کیا گیا,
جس کے سربراہ ڈی جی ایم او کو مقرر کیا گیا,
اسپیشل سیل نے جب اس کام کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت صرف پانچ نکات پر پیش رفت تھی۔جی ایچ کیو کے اسپیشل سیل نے  30 سے زائد محکموں،  وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن کا میکنزم بنایا اور ہر پوائنٹ پر مکمل ایکشن پلان مرتب کرکے اس پر  عمل کیا۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے سرخرو ہونے کے پیچھے بھی دھرتی کے بیٹوں کی محنت پوشیدہ ہے,
جی ایج کیو میں قائم اسپیشل سیل نے اپنی قومی رسک اسسمنٹ 2019کے عمل کو اپنے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے خطرات اور اس کی بنیاد پرجامع پلان مرتب کیا, گزشتہ 4 سالوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں کمی آئی ہے اس کی بنیادی وجہ اینٹی منی لانڈرنگ اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ قوانین میں مسلسل بہتری ہے جس میں مستقبل کے خطرات سےنمٹنے کے لیے سخت اقدامات وضع کئے
جی ایچ کیو میں قائم سیل نینئے ایکشن پلان کے آغاز سے ہی ٹریرسٹ فائناسنگ  رسک اسسمنٹ تیارکی کہ جس میں پاکستانی حکام کو مختلف شعبوں، مصنوعات اوررابطے کے ساتھ ساتھ زیادہ خطرے والے علاقوں کے بارے میں ٹی ایف کے متعلق مکمل معلومات دی گئی۔
گزشتہ 2 سالوں میں پاکستان کی مجموعی پیشرفت نے  غیر رسمی /باضابطہ قانونی معاونت کرتے ہوئے اسٹینڈ ایلون منی لانڈرنگ ایکٹ 2020 کونافذ کیا اور 26,630 شکایات پر کارروائی کی گئی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس اور جیولرز کی طرف سے  اینٹی منی لانڈرنگ اور کاونٹر ٹریف فائناسنگ  کی تعمیل کی نگرانی کے حوالے سے غیر مالیاتی کاروبارکے لئے  ایک اسپیشنل ڈائریکٹوریٹ قائم کیا۔

ایف اے ٹی ایف پلان کے مطابق  اس رپورٹنگ سائیکل میں ضبط اثاثوں کی تعداد اور مالیت کو ظاہر کیا گیا, جس میں 71 فیصد اثاثے ضبط جبکہ 85 فیصد اثاثوں کی مالیت میں اضافہ ہوا۔ایف بی آر نے بڑے پیمانے پر22000  سے زائد کیسز 351 ملین کے مالی جرمانے عائد کیے۔ 1,700 سے زائدمختلف غیر قانونی کاروبار کی آف سائٹ نگرانی مکمل کی، اورساتھ ہی ساتھ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو  بھی قانون کے دائرے میں لایا, سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے  146,697 کیسز کا جائزہ لیا اور 2,388 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے۔منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں گزشتہ ایک سال کے
دوران 123%فیصداضافہ ہوا,منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن کی گزشتہ 13 مہینوں کے دوران  تحقیقات مکمل کی گئیں, وفاقی اور صوبائی حکام کی جانب سے دہشت گردی کی مالی معاونت  اور ٹارگٹڈ فنانشل سینکشنز کے لئے جامع لائحہ عمل دیا
الحمد الله پاکستان نے جلدی جلدی مقررہ وقت سے قبل اپنے اہداف کو مکمل کیا,فیٹف نے  2021 کے ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لئے جنوری, 2023 کا وقت دیا تھا, رواں سال ستمبر میں فنانشل ٹاسک فورس کی ٹیم   پاکستان آئے گئی, فیٹف کی ٹیم اینٹی منی لانڈرنگ اورکاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ سسٹمز کی پائیداری اور ناقابل واپسی کا معائنہ کریں گئی, جس کے بعد 22 اکتوبر تک وائٹ لسٹنگ کی راہ ہموار ہوگی
فاٹا اصطلاحات
سربراہ پاک فوج
کی ہدایت پر ایک جامع ایکشن پلان کی تیاری کے تحت فاٹا اصطلاحات کا نفاذ ہوا, پاکستان نے بغیر کسی امتیاز کے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کاروائی کی اور حقداروں کو ان کا حق دلایا
فاٹا اصطلاحات بہت اہم چیلنج تھا جو الحمدﷲ 2017 میں قومی دھارے میں آچکا ہے,تاخیر کے ساتھ ہی سہی مگر قبائلی علاقے فاٹا کا خیبر پختونخوا میں ضم ہونا خوش آئند امر ثابت ہوا, فاٹا کے قبائل نے قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا, باجوڑ سے قومی اسمبلی کے سابق رکن شہاب الدین خان نے فاٹا انضمام جیسے مشکل کام کی تکمیل پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت پاک فوج کے کردار کو خوب سراہا,
فاٹا یوتھ جرگہ کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ “فاٹا کی اصلاحات کے عمل کو حکومت بغیر کسی فیصلے کے ختم کرنا چاہتی تھی، لیکن آرمی چیف کی بیش بہا کوششوں سے فاٹا قومی دھارے میں شامل ہوا, فاٹا انضمام میں پاک فوج کے کردار کے بعد پی پی پی اور پی ٹی آئی نے بھرپور اور کامیاب کوشش کی
آرمی چیف کا دورہ چین*
9 سے 12 جون تک  چیف آف آرمی اسٹاف نے چین کا دورہ کیا, سربراہ آرمی چیف کا حالیہ دورہ پاک چین مشترکہ فوجی تعاون کمیٹی کا حصہ ہے۔دورے کے دوران پاکستان اور چین نے مشکل وقت میں اپنی اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا اعادہ کیا اور باہمی مفادات کے امور پر نقطہ نظر کا باقاعدہ تبادلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔پاکستان اور چین نے سہ فریقی سطح پر اپنی تربیت، ٹیکنالوجی اور انسداد دہشت گردی تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا, پاکستان، چین نے چیلنجوں کے باوجود دفاعی تعاون بڑھانے کا عزم کیا۔ ️چین اور پاکستان کی عسکری قیادت نے مشکل وقت میں “اپنی اسٹریٹجک شراکت داری” کو بیان کرتے ہوئے تعاون کی یقین دہانی کرائی

ملٹری ڈپلومیسی

حکومت کے ساتھ ملکر پاک فوج,خارجہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے موثر کردار ادا کر رہی ہے, اس لئے وقت فوقتا مختلف ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے, اس انعقاد سے دفاعی تعلقات کے ساتھ قومی، اقتصادی اور سفارتی مقاصد کی راہیں بھی ہموار ہوتی ہیں, ان ہی کامیاب فوجی تربیت اور مشقوں کے نتیجے میں روس کے ساتھ تعلقات بھی بحال ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند بڑی مشقوں میں درج ذیل شامل ہیں:
1.. دسمبر 2016 میں پاکستان فوج نے اردن کی فوج کے ساتھ مل کر فجر الشرق مشق کا انعقاد کیا
2..اکتوبر 2017 اور اکتوبر 2018 میں پاکستان نے برطانیہ میں منعقدہ “مشق کیمبرین پیٹرول” میں گولڈ میڈل جیتے جس میں 31 ممالک کی 134 ٹیموں نے حصہ لیا۔
3…جون 2017 میں پاک فوج کی ایس ایس جی نے نائجیرین اسپیشل فورسز بٹالین کے ساتھ 8 ہفتوں پر مشتمل انسداد دہشت گردی کی تربیتی مشق کی
4… پاکستان اور روس کی افواج  کے درمیان مشترکہ مشق DRUZBA 2017 ستمبر  میں روس میں منعقد ہوئی۔
5.. 2017 میں ہی پاک-سعودی اسپیشل فورسز کی مشترکہ مشق انسداد دہشت گردی مشق ‘الشہاب  کے نام سے ہوئی
6… دسمبر 2018 میں پاک چین مشترکہ فوجی مشق ‘واریر -VI 2018 کے نام سے ہوئی
7..جنوری 2020 میں پاکستان نیوی اور پی ایل اے (نیوی) کے درمیان چھٹی دو طرفہ مشق سی گارڈینز-2020 ہوئی
8… 14 اکتوبر 2020 کو، پاکستان آرمی نے مسلسل تیسری بار برطانیہ کے سینڈہرسٹ میں رائل ملٹری اکیڈمی میں منعقدہ ایک بین الاقوامی ملٹری ڈرل مقابلہ جیتا جسے پیس اسٹکنگ مقابلہ کہا جاتا ہے۔ پاک فوج نے پہلی بار 2018 میں ایونٹ میں شرکت کی تھی
9.. پاکستان اور بحرین کی مشترکہ مشق “البدر 2020 فروری کے ماہ میں منعقد ہوئی
10…  اتاترک-الیون 2021،  ترکی اور پاکستان کے درمیان مشترکہ اسپیشل فورسز کی مشق کا انعقاد بھی ہوچکا ہے
11.. فروری 2021 میں  پاکستان اور مراکش کے درمیان مشترکہ مشقیں بھی ہوچکی ہیں
12… اکتوبر 2021۔ میں 46 ممالک  نیول ایکس امن مشق 21 میں حصہ لے چکے ہیں ۔ جس میں امریکہ,  برطانیہ جیسے نیٹو اتحادی اور  روس بھی شامل تھا.
13..مارچ 2022 میں،  پاکستان اور امریکہ کی فضائی افواج نے ایک مشترکہ مشق، فالکن ٹیلون 2022، پاکستان کے آپریشنل ایئر فورس بیس پر منعقد کی۔
14..  پاک فوج کی ٹیم نے نیپال میں 18 سے 21 مارچ 2021 تک منعقدہ بین الاقوامی “ایڈونچر مقابلے” میں گولڈ میڈل اپنے نام کیا ۔ اس مقابلے کا مقصد شرکاء کی جسمانی برداشت اور ذہنی چستی کو جانچنا تھا اور اس میں کراس کنٹری دوڑ، سائیکلنگ اور رافٹنگ شامل تھے۔
15.. پاکستان آرمی کے زیر اہتمام لاہور میں یکم سے 7 نومبر تک بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد کیا گیا, اس میگا ایونٹ تیسرا بین الاقوامی فزیکل ایگیلیٹی اینڈ کامبیٹ ایفیشنسی سسٹم (PACES) میں چھ ممالک نے حصہ لیا, جن میں عراق، اردن، فلسطین، سری لنکا، ازبکستان اور یو اے ای کے 107 فوجی اہلکار شامل تھے۔ اس تقریب نے پاکستان کو ایک پرامن اور کھیلوں سے محبت کرنے والی قوم کے طور پر پیش کرکے وطن عزیز کا حقیقی چہرہ آشکار کیا۔

16.. 53ویں عالمی ملٹری شوٹنگ چیمپئن شپ (شاٹ گن) 2021 کی تقریب لاہور میں منعقد ہوئی جسے عرف عام میں انٹرنیشنل ملٹری اسپورٹس کونسل کہا جاتا ہے۔ یہ دوسرا موقع تھا جب پاکستان نے انٹرنیشنل ملٹری چیمپئن شپ کا انعقاد کیا۔ جس میں روس، فرانس، سری لنکا، فلسطین، کینیا کے 41 بین الاقوامی شوٹرز سمیت 50 سے زائد شرکاء نے شرکت کی , اس ایونٹ کا مقصد ‘کھیلوں کے ذریعے دوستی’ کا تھا, اس ایونٹ میں ایران آور نیپال کے حکام نے بھی شرکت کی
17…  نو تا سات مارچ 2022 کو، پانچواں بین الاقوامی پاکستان آرمی ٹیم اسپرٹ (PATS) مقابلہ – پہاڑی قصبے پبی میں واقع نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر میں منعقد ہوا۔ مقابلے میں آٹھ پاکستانی اور آٹھ بین الاقوامی ٹیموں نے حصہ لیا جن میں اردن، مراکش، نیپال، ترکی، ازبکستان، کینیا، سعودی عرب اور سری لنکا شامل تھے
دفاعی برآمدات کو بڑھانا
فوجی سفارت کاری نے پاکستان کے خارجہ تعلقات کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فوجی سفارت کاری نے قومی مقاصد کے حصول کے ساتھ  معاشی لنگر اندازی فراہم کرنے میں ریاستی اداروں کی مدد کی, کامیاب فوجی سفارت کاری سے پاکستان کی اسلحے کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا،
منسٹری آف ڈئفنس پروڈکیشن  کے مطابق، پچھلے پانچ سالوں میں دفاعی برآمدات (تقریباً 60 بلین روپے) اور اندرون ملک سیلز (تقریباً 70 بلین روپے) میں بے مثال اضافہ ہوا ہے۔ سال 2019 میں، پاکستان ائیر کرفٹ کامرہ نے JF-17,  نائجیریا کو 184 ملین امریکی ڈالر میں برآمد کیے اور عراق کو 33.33 ملین امریکی ڈالر کے معاہدے کو حتمی شکل دی, ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا نے بین الاقوامی مارکیٹ کی 1/3 قیمت پر مقامی طور پر تیار کردہ الخالد ٹینکوں کو تیار کرنے کا کام کیا۔ جس کے بیرونی ممالک سودوں سے قومی خزانے میں سالانہ تقریباً 6 بلین روپے کا اضافہ ہوا اس کے علاوہ دفاعی پیداوار کے شعبے میں 8000 ملازمتوں کا موقع فراہم ہوا,
قیام امن کے لئے پاک فوج کا اقوام متحدہ سے تعلق
پاکستان امن کا پیامبر ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ کے قیام امن چارٹر کا داعی ہے, پاکستان نے 1960 سے  امن کے قیام کی خاطر اقوام متحدہ کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستانی امن دستوں نے انسانیت کی مدد، اداروں کی تعمیر اور امن کو فروغ دینے کے لئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جسے اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں نے پذئرائی دی, 1960 سے، اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ وابستگی کے دوران، پاکستان کے 200,000 فوجیوں نے خدمات سر انجام دئیں جبکہ 163 فوجیوں نے امن کی خدمت میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔امن کے فروغ کے لیے مسلسل کوششوں کے ساتھ ساتھ، کانگو کے سیلاب میں 2,000 افراد کو بچانے کی پاکستان کی کوشش اور COVID-19 کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی خواتین امن دستوں کی خدمات کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا.پاک فوج کی کاوشوں کی وجہ سے عالمی امن کی کارروائیوں میں تعاون فراہم کرنے میں پاکستان کو پانچواں ملک کا اعزاز دلوایا، اس وقت اقوام متحدہ کے قیام من آپریشن کے تحت مختلف ممالک میں پاکستان کے 4,462 سے زیادہ فوجی اور پولیس اہلکار تعینات ہیں, اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے مشنز میں 15% خواتین اسٹاف آفیسرز کو بھی تعینات کیا ہے ۔  جولائی 2019 میں کانگو میں پاک فوج کی خواتین کی ٹیم تعینات کی گئی تھی جس میں 20 افسران شامل تھیں, 26 مئی 2022 کو، اقوام متحدہ کی طرف سے ایک تقریب میں چھ پاکستانی امن فوجیوں کو ایوارڈ دیا گیا۔ جنھنوں نے امن کے حصول کی خاطر جانیں قربان کیں, جن
طاہر اکرام، طاہر محمود، محمد نعیم، عادل جان، محمد شفیق، اور ابرار سید کا تعلق پاک فوج سے ہے, پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ 13 اگست 2013 کو، اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسلام آباد میں سینٹر فار انٹیل پیس اسٹڈیز  کی افتتاحی تقریب میں کہا تھا کہ سو سے زائد ممالک اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیے فوج اور پولیس کے تحت تعاون کرتے ہیں۔ جس میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی خدمات کو اجاگر کیے بغیر اقوام متحدہ کی امن کاوشیں ناممکن ہیں۔
اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل انتونیو گیٹریس نے 17 فروری 2020 پاکستانی امن فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا, انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں امن کی کوششوں میں سب سے زیادہ مستقل اور قابل اعتماد تعاون کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان کے خواتین کے امن دستے دیگر ممالک کی فوج  کے لیے اعلی مثال ہیں۔
امن کے فروغ اور انسداد دہشت گردی کے لئے کام کرنا پاک فوج کا طرہ امتیاز ہے, جو قائداعظم محمد علی جناح کے ان الفاظ ‘ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں اور اپنے قریبی پڑوسیوں اور پوری دنیا کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا کسی کے خلاف کوئی جارحانہ منصوبہ نہیں ہے’ کی زندہ مثال ہے۔
کرتار پور راہداری اور مذہبی سیاحت کا فروغ:
فرينٹير وركس اورگنائریشن نے کرتارپور کوریڈور تیار کیا، جو پاکستان میں گوردوارہ دربار صاحب کو ہندوستان میں گرودوارہ ڈیرہ بابا نانک سے جوڑتا ہے, جس کے نتیجے میں سکھ برادری کے ساتھ پاکستان کے بہتر تعلقات پروان چڑھے اور مذہبی سیاحت کو فروغ ملا۔
قومی کرکٹ کی بحالی:
2009 میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ پر  پابندی عائد ہوئی, جس میں بھارت کا اہم کردار تھا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان میں کبھی بین الاقوامی کرکٹ دوبارہ شروع نہیں ہو گی۔ مگر الله کے فضل سے پاک فوج کی کوششیں رنگ لائیں اور آسٹریلیا، انگلینڈ اور سری لنکا کی فوجی ٹیموں نے پاکستان آکر اعتماد کا اظہار کیا, دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام خدشات کو دور کرنے کے لیے میچز لاہور، راولپنڈی، پشاور اور حتیٰ کہ وزیرستان میں بھی کرائے گئے۔ سری لنکا پہلا ملک تھا جس نے 2019 کے آخر میں بین الاقوامی ٹیسٹ کرکٹ دوبارہ شروع کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔
ملٹری ڈپلومیسی کی وجہ سے وطن عزیز کو سعودی عرب اور چین سے فوری امداد ملی, چین کی جانب سے حالیہ دو ارب ڈالر کی امداد بھی فوجی سفارت کاری کی کامیابی ہے
اسی طرح فوجی قیادت نے سعودی عرب اور چین کو اعتماد میں لیکر قرضوں کی ادائیگی پر قائل کیا ہے۔  حال ہی میں 31 مئی 2022 کو، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پرمحمد بن سلمان تین بلین کی رقم واپس لینے کی تاریخ کو آگے بڑھا دیا ہے

کراچی ٹرانسفارمیشن پلان
کراچی میں قیام امن کے بعد پاک فوج شہر کی تعمیر و ترقی میں بھی شدومد کے ساتھ حکومت سے تعاون کر رہی ہے, این ڈی ائم اے, این ایل سی, ایف ڈبلیو او اس منصوبے میں حکومت کی معاونت کر رہے
کراچی میں امن و امان کی بحالی
فوج اور رینجرز سندھ کی خدمات اور قربانیوں کی وجہ سے کراچی میں امن و امان برقرار ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ برسوں کے دوران دہشت گردی اور جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں