قابل کاشت اراضی کو زیر کاشت لا کر غذائی اجناس میں خود کفیل ہوسکتے ہیں، شہزاد علی ملک

لاہور:رائس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب کے چیئرمین شہزاد علی ملک نے کہا ہے کہ پاکستان 18 ملین ایکڑ قابل کاشت اراضی کو زیر کاشت لا کر غذائی اجناس میں خود کفالت لے علاوہ اربوں ڈالر کا بھاری زرمبادلہ بھی بچا سکتا ہے۔ مومن علی کی قیادت میں ترقی پسند کسانوں کے وفد سے جمعرات کو گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال غذائی عدم تحفظ کو روکنے کے لیے زراعت سے متعلقہ درآمدات پر 14.5 بلین ڈالر خرچ کیے گئے۔

انہوں نے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں زرعی شعبے کے فروغ کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کیے جانے کا خیرمقدم کیا تاہم اس بات پر تحفظات کا بھی اظہار کیا کہ سرکاری اور نجی شعبوں کے پلانٹ بریڈرز کو جدید تحقیق میں مدد کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہمسایہ ملک میں بیجووں کی 93 نئی اقسام متعارف کروائی گئیں اور کپاس کا بیج کیڑوں کے حملہ سے پاک بھی تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاول، کپاس اور گندم کے بہترین معیار، اعلیٰ پیداواری صلاحیت کے حامل اور کیڑوں سے پاک بیج تیار کرنے کے لیے مراعاتی پیکج دے کر پلانٹ بریڈرز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر نے ایک بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے گارڈ ایگرکلچر ریسرچ اینڈ سروسز نے چاول، کپاس اور گندم کے نئے بیج تیار کرنے والوں کے لیے فی فصل 10 ملین روپے کے انعامات کا اعلان کیا ہے۔

شہزاد علی ملک نے کہا کہ بنجر اور غیر آباد زمین کو زیر کاشت لانے سے زرعی پیداوار میں اضافہ اور غذائی تحفظ میں مدد مل سکتی ہے جس سے درآمدات پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔ اس سے خوراک کی دستیابی میں اضافہ اور تجارتی خسارہ بھی کم ہو گا اور معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بنجر زمین کو زرعی زمین میں تبدیل کرنے سے ماحولیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس سے مٹی کے کٹاو کو روکنے، زمین کی زرخیزی کو بہتر بنانے اور حیاتیاتی تنوع میں اضافہ میں مدد ملے گی۔ یہ ماحولیاتی فوائد طویل مدتی اقتصادی استحکام میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔

وفد کے رہنما مومن علی نے ملک میں سبز انقلاب لانے کے لیے جدید زرعی آلات اور زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پلانٹ بریڈرز زرعی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے بغیر بمپر پیداوار ممکن نہیں لہٰذا بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کو بہت زیادہ حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ وہ جدید تحقیق کا کام بہتر طریقے اور جوش جذبے کے ساتھ انجام دے سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں